خواہش ہے ان گلوں کو دوامی بہار دوں

خواہش ہے ان گلوں کو دوامی بہار دوں
جتنے کیے ہیں عشق، سخن میں اتار دوں

ویسے تو اس کا نام نہیں حافظے میں اب
ممکن ہے روبرو جو کبھی ہو، پکار دوں

دو چار پل حیات کے گزریں جو تیرے ساتھ
باقی حیات ان کے سہارے گزار دوں

میں وہ ہوں جو فرہاد کا تیشہ کرو ہوں تیز
میں وہ بھی ہوں جو قیس کو وحشت ادھار دوں

حسرت ہے شہر یار میں بن کر فقیر عشق
بھٹکوں، صدائیں یار کو لیل و نہار دوں

مجھ کو محبتوں نے دیا ہے غزل کا فن
لازم ہے ہر غزل میں، محبت پہ وار دوں

بھاسکر شکلا

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں