دردِ دل
کتنا بدل گیا ہے ہندوستاں ہمارا
کانٹوں سے بھر گیا ہے یہ گلستاں ہمارا
سہما ہوا سا بچہ یوں آ کے پوچھتا ہے
دشمن بنا ہوا ہے کیوں مہرباں ہمارا؟
نفرت کی آندھیوں نے کتنا ستم جمایا
ان میں چھپا ہوا ہے شورِ زیاں ہمارا
انسانیت ہے زخمی، بد رنگ ہے ثقافت
بے سمت ہو گیا ہے پیر و جواں ہمارا
اب زعفران پی کر ہونے لگی صحافت
مخدوش ہو گیا ہے وہم و گماں ہمارا
ارزاں ہے آج کتنا دیکھو یہ خونِ مسلم
کیوں روٹھ سا گیا ہے ہر سائباں ہمارا
آیا ہے تیز طوفاں، کشتی بھنور میں اٹکی
یہ وقت لے رہا ہے اب امتحاں ہمارا
قانون بے سہارا، شاطر دماغ خائن
کیسے مٹا رہا ہے ہر اک نشاں ہمارا
گندی زبان کرتی ہے دل پہ تیز حملہ
روٹھا ہوا ہے دیکھو ہر شادماں ہمارا
بارود پی رہی ہے دل کی زمین ہر دم
کیوں سوکھ سا گیا ہے یہ آسماں ہمارا
کیا سوچ کر کہا تھا اقبال نے یہ مصرع
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہے خوف کا بسیرا احسن مزارِ دل پر
اب خون بن رہا ہے دردِ نہاں ہمارا
(کتنا بدل گیا ہے ہندوستاں ہمارا)
(کانٹوں سے بھر گیا ہے یہ گلستاں ہمارا)
22/ مارچ 2022ء