جو خود آنکھوں سے عاری ہے اندھوں کا نگہباں کیا ہوگا
بدبو سے بھرا ہو جس کا بدن وہ شخص گل افشاں کیا ہوگا
جب خونی رشتے اک دوجے کے خون کے پیاسے بن جائیں
اس دور میں امن عالم کا اے لوگو امکاں کیا ہوگا
جو شیطانی ہتھ کنڈوں سے لوگوں کو ہراساں کرتا ہے
اک روز یہ دنیا دیکھے گی کوئی اس سا ہراساں کیا ہوگا
بھاری بوٹوں کی نوک تلے جو روندا گیا کم عمری میں
وہ پھول بھلا کیا مہکے گا اختر وہ درخشاں کیا ہوگا
جب ہم واپس مڑ جائینگے الو سارے اڑ جائینگے
پھر دیکھنا اپنی آنکھوں سے انجام گلستاں کیا ہوگا
جس دور میں خیر کا بدلہ بھی شر کی صورت میں ملتا ہو
اس دور فتن میں پرواؔنہ لوگوں پہ مہرباں کیا ہوگا
پرواؔنہ برہانپوری