کیوں ہم سے مانگ رہے ہو حسابِ آزادی

کیوں ہم سے مانگ رہے ہو حسابِ آزادی

سدا مہکتے رہیں گے گلابِ آزادی
مزید بڑھتا رہے گا شبابِ آزادی

ملے گا نام ہمیشہ ہی دیں کے پیاروں کا
اٹھایا جاۓ گا جب جب حجابِ آزادی

وہ فضلِ حق ہوں لیاقت یا احمد اللہ ہوں
سبھی کے خوں سے ہوئ نم ترابِ آزادی

وہ چڑھ کے پھانسی کے پھندے کو چومتے کافی
ہمیں سے کر کے گۓ ہیں خطابِ آزادی

ہمارے خوں کے نشاں ہیں وطن کی مٹی پر
کیوں ہم سے مانگ رہے ہو حسابِ آزادی

بھرے ہوئے ہیں سبھی باب اہلِ ایماں سے
کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتابِ آزادی

ادیب کیسے بھلائیں گے ان شہیدوں کو
جو لکھ گۓ ہیں لہو سے نصابِ آزادی

محمد ادیب رضا بدایونی


چھلک رہاہے نگاہوں سےآب آزادی

اگست آکے بڑھاے شباب آزادی

چھلکتی نہروں کا رنگیں شباب آزادی

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has One Comment

جواب دیں