کیوں خبیثوں کو نہ کھٹکے طیبہ عالی جناب

کیوں خبیثوں کو نہ کھٹکے طیبہ عالی جناب

اے جوانو بیٹیوں بہنوں کو نہ دیجے گلاب
آنکھ نیچی رکھیے اپنی بہنوں کو دیجے حجاب

نہ سمجھیے مومنہ عورت کی عزت کو حباب
چند ہی لمحے نظر آتا ہے جو بر سطح آب

پارکوں، سڑکوں، پبوں میں فالتو چیزیں ملیں
رکھے جاتے ہیں ہمیشہ ہی چھپا کر در ناب

حرص دنیا میں نہ کھونا عزت و عصمت کبھی
کیونکہ ہے دنیاوی عزت، دولت و شہرت، سراب

ہے خبیثوں کو خبیثہ طیبوں کو طیبہ
کیوں خبیثوں کو نہ کھٹکے طیبہ عالی جناب

بے حیائی عام کرتے مومنوں میں جو انہیں
ہے سزا دونوں جہاں میں کہتی ہے رب کی کتاب

اپنی ماں کے شوہروں سے جو نہیں پیدا ہوے
ان غلیظوں کے لیے ہے پردۂ عورت عذاب

جن کے گھر کی عورتیں پھرتی ہیں بکنی ٹاپ میں
وہ ہی چاہیں مومنہ عورت سے اترانا نقاب

بیٹیو پردہ بچائے گا تمہیں دوزخ سے بھی
کیا دکھانا غیر کو یہ چند روزہ ہے شباب

اب کہ جب حکام خود بے پردہ کرنے پر اڑے
پھر بھی پردہ کر لے بیٹی پاے گی دونا ثواب

قوم کی معمار ہیں اسلام کی بھی شان ہیں
جو بھی میری بیٹیاں اور بہنیں ہیں عفت مآب

نعرہ اللہ اکبر کتوں میں گھر کر کے بھی
شیرنی مسکان تیرا حوصلہ ہے لاجواب

کیوں نہ تسلیمات تجھ کو پیش اکبر بھی کرے
تیرے دم سے ہوگئی ہے عزت دشمن خراب

از محمد اکبر علی برکاتی
باگی، کدورہ،جالون، یو پی


يه بھي پڑھيں:

14 فروری ویلنٹائنس ڈے

کفر لرزا ہے جب اک مسکان کی تقریر سے

یعنی مسکان تری رسمِ قیادت کو سلام

تو نے اک ہلچل مچادی نعرۂ تکبیر سے

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں