لہو سے کی ہے مرتب کتاب آزادی

لہو سے کی ہے مرتب کتاب آزادی
لکھا گیا ہے مشقت سے باب آزادی

بہار آئی چمن میں خزاں ہوئی رخصت
بہت دنوں میں کِھلا ہے گلاب آزادی

خوشی کی دھوم ہے ہرسو مگر مرے ہمدم
چڑھا وطن پہ جتن سے شباب آزادی

کفن سروں پہ دلوں میں وطن کی الفت تھی
تبھی وطن کو ملا ہے خطاب آزادی

نہ مال و زر کی نہ ہی سروری چاہت تھی
بسا تھا آنکھ میں انکے تو خواب آزادی

شہید اتنے ہوئے ہیں وطن کی خاطر کے
بہت محال ہے لکھنا حساب آزادی

حسین سارے جہاں کا مشاہدہ کرلے
نہیں ملے گا کہیں بھی جواب آزادی

(لہو سے کی ہے مرتب کتاب آزادی)
(لکھا گیا ہے مشقت سے باب آزادی)

محمد مزمل حسین
مظفر نگر


نظر میں جن کی سمائے تھے خوابِ آزادی

کرو نہ ختم کتابوں سے باب آزادی

پِلایا اہل وطن کو ہے جامِ آزادی

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has One Comment

جواب دیں