لہوسے لکھی گئی ہے کتابِ آزادی
عزیمتوں سے بھرا ہےنصابِ آزادی
نہ جانے کتنوں کے گھر بار لٹ گئے اس میں
ملا ہے یوں ہی نہیں انقلابِ آزادی
یہاں کی خاک کو خونِ جگر سے سینچا گیا
کھلا ہے تب کہیں جاکر گلابِ آزادی
اٹھایا تھا جو جہادِ علم اکابرنے
اسی سے ہم کو ملی آفتابِ ازادی
نہ جانے کتنے مجاھد کی جاں گئ اس میں
جو آج خوب بندھاہے طنابِ آزادی
تو بھول جاۓ گا غدار کہنا اے ظالم
”کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتابِ آزادی“
مثال اس کی نہیں ہے جہان میں القاب
کہاں سے لائے گا کوئی جوابِ آزادی
(لہوسے لکھی گئی ہے کتابِ آزادی)
(عزیمتوں سے بھرا ہےنصابِ آزادی)
محمد القاب رضا غزالی کشن گنجوی
This Post Has One Comment
Pingback: چھلکتی نہروں کا رنگیں شباب آزادی - Global Urdu