لکھا ہے خونِ شہیداں سے بابِ آزادی

لکھا ہے خونِ شہیداں سے بابِ آزادی
چمن میں تازہ رہے گا گلابِ آزادی

بہت سی جانیں گئی ہیں وطن کے بیٹوں کی
ہوا تمام ہے پھر جاکے خوابِ آزادی

سمجھ میں آئے گی خونِ شہید کی عظمت
کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتابِ آزادی

سہے تھے ظلم بہت ملک کے جوانوں نے
بنایا ملک نے پھر اک نصابِ آزادی

بہت سے ہند کے دانش وروں کی کاوش تھی
کہ چھا گیا تھا دل و جاں میں تابِ آزادی

بطورِ جیشِ مقدّم ہوئے وہ قرباں بھی
وطن میں چھا ہی گیا انقلابِ آزادی

وطن پہ پھر سے جو دلشاد آنچ آئے گی
چمک اٹھے گا وہی آفتابِ آزادی

(لکھا ہے خونِ شہیداں سے بابِ آزادی)
(چمن میں تازہ رہے گا گلابِ آزادی)

محمد دلشاد احمد مصباحی، دیوگھر جھارکھنڈ


کیوں ہم سے مانگ رہے ہو حسابِ آزادی

چھلک رہاہے نگاہوں سےآب آزادی

اگست آکے بڑھاے شباب آزادی

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has One Comment

جواب دیں