لوگ کہتے ہیں مرا ہندوستاں آزاد ہے
پوچھتا ہوں سچ بتاؤ یہ کہاں آزاد ہے؟
کچھ پرندوں نے اٹھایا ہے سوالِ پُر ملال
چہچہانے کو ہمیں کیا گلستاں آزاد ہے؟
سانس لینے پر بھی دینا ہے خراجِ دشمناں
کیسے کہتے ہو کہ یہ دارالاماں آزاد ہے؟
پوچھتی ہیں مسجدیں اہلِ وطن سے بار بار
میرا سجدہ اور کیا میری اذاں آزاد ہے؟
حکمرانوں نے بُنا ہے جال ظلم و قہر کا
خامہِ اہلِ سخن اور نے زباں آزاد ہے
زہر کی مانند ہے ظالم ترا احسان بھی
کھیتیاں مجبور تو آتش فشاں آزاد ہے
ظلم کی کشتی پہ بیٹھا ناخدا ہنستا ہوا
سرد لہرو تم بتاؤ، بادباں آزاد ہے؟
آج بھی ہے جیل میں گھر کا مکیں سہما ہوا
منہدم ہونے کو احسن بس مکاں آزاد ہے
(لوگ کہتے ہیں مرا ہندوستاں آزاد ہے)
(پوچھتا ہوں سچ بتاؤ یہ کہاں آزاد ہے؟)
توفیق احسن برکاتی