میں مر رہا تھا
مرے خریدے ہوئے گلابوں
کو تو نے پھینکا تھا بے دلی سے
انھی گلابوں کو روند کر جب کوئ مسافر
گزر رہا تھا، میں مر رہا تھا
ترے بچھڑنے کے بعد اتنا بدل گیا تھا
مری شرارت بھی کھو گئ تھی
میں اتنا رویا تھا میری امی بھی رو گئ تھی
اٹھارہ سالہ جوان لڑکا بزرگوں جیسا بنا ہوا تھا
سبھی کو لگتا ہے ان دنوں میں سدھر رہا تھا
مگر مری جاں
تو جانتی تھی
میں مر رہا تھا
ہم ایک دوجے کی جان بن کر
جئیں گے ایسے
کے لوگ ہم سا
نصیب مانگیں گے اپنے رب سے
ہم ایک دوجے سے دور ہوں گے
سبب جدائ کا موت ہو گی
تری یہ باتیں ترے یہ وعدے
میں یاد کر کے بکھر رہا تھا
تو اپنے وعدوں سے رفتہ رفتہ مکر رہا تھا
میں مر رہا تھا
وہ تین دن جب بخار ہونے
کے با سبب تو
یونیورسٹی سے آف ہو کر
سکون کرنے کو کو گھر رہا تھا
میں مر رہا تھا
ہمارے رشتے کے بارے لوگوں
کو علم ہو گا تو کیا کہیں گے
ہم اس تعلق کو توڑ دیں گے
ہم ایک دوجے کو چھوڑ دیں گے
یہ بات مجھ کو رلا رہی تھی
تو میرے ہوتے ہوئے بھی لوگوں سے ڈر رہا تھا
میں مر رہا تھا
آکف صدیقی