موج فتح گڑھی كا تعارف

موج فتح گڑھی كا تعارف

نام:راجیندر بہادر

تخلص: موج فتح گڑھی

تاریخ ولادت: 3 جولائی 1922

جائےولادت: بہبل پور، تحصیل چھبرا مئو، ضلع فرخ آباد، اترپردیش بھارت

موج فتح گڑھی کے والد منشی رام کنور سکسینہ نے گاؤں چھوڑ کر فتح گڑھ شہر میں سکونت اختیار کرلی اسی لیے موج نے ہائی اسکول گورنمنٹ کالج فتح گڑھ سے کیا۔ انٹرمیڈیٹ الٰہ آباد سے، بی۔ اے۔ آگرہ اور ایل۔ ایل۔ بی۔ کی ڈگری ڈی۔ اے۔ وی۔ کالج کانپور سے 1944 میں حاصل کی۔

شاعری کا شوق آپ کو کب پیدا ہوا ہے اس کے متعلق خود موج لکھتے ہیں:

"یوں تو میں سنہ 1935 سے شعر کہہ رہا ہوں مگر میری باقاعدہ شعر گوئی کی ابتدا میرے زمانے قیام آگرہ 1939 سے ہوئی۔ جہاں مجھے ملک کے نامور شعراء اور ادیبوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کرنے اور ان کے ساتھ نشستوں میں شرکت کرنے کے فیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہوا".

(ساگر 1983)

موج کے مجموعہ کلام

طوفان 1954، موج و ساحل 1958 ، موج در موج 1980 ، ساگر 1983، موجیں 1984، لہریں 1986، شکنتلا 1989 ، آکاش 1990

ان میں سے کئی کتابیں اترپردیش اردو اکادمی سے نام یافتہ ہیں۔

موج فتح گڑھی ان شعراء میں سے ہیں جنہوں نے حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے متاثر ہو کر نعت پاک بھی تحریر فرمائی ہیں۔

(موج فتح گڑھی  كا تعارف)

نمونہ کلام:

خالق نے سنوارا ہے ہر کام محمد کا

گرتوں کا سارا ہے اک نام محمد کا

خمخانۂ وحدت ہے قرآن جسے کہیے

لبریز مئے عرفاں ہے جام محمد کا

ہر مذہب و ملت پر یکساں ہے کرم جاری

ہے سب کے لیے رحمت اسلام محمد کا

اوہام کی ظلمت میں اک شمع ہدایت ہے

بھٹکی ہوئی دنیا کو پیغام محمد کا

تصویر حقیقت ہے اک درس محبت ہے

ہر بات محمد کی ہر کام محمد کا

اے موج سہارے کو طوفان حوادث میں

اک نام خدا کا ہے اک نام محمد کا

****************

ابتداء تم ہو انتہا تم ہو!

عقل حیران ہے کہ کیا تم ہوا

صرف نظروں سے پردہ داری ہے

ورنہ ہر شے سے رونما تم ہو

جز تمہارے نہیں کوئی دل میں

میری فطرت سے آشنا تم ہو

ساز تار نفس، جہاں بھی رکے

کاش اس وقت نغمہ زا تم ہو

سخت طوفان میں ہے سفینہ موج

آخری ایک آسرا تم ہو

*****************

نور ہی نور ہے تا عرش بریں آج کی رات

راستہ تکتے ہیں جبریل امیں آج کی رات

ہیں وہی پھول، وہی روز کے ماہ و انجم

جانے کیوں لگتی ہے ہر چیز حسیں آج کی رات

دیکھ کر عرش پہ محبوب خدا کی آمد

رک گئی گردش افلاک و زمیں آج کی رات

مذہب و قوم سے محدود نہیں فیض رسول

جھک گئی سارے زمانے کی جبیں آج کی رات

تھی جہاں بارش انوار زمین سے تا عرش

کاش ہوتا دل ناداں بھی وہیں آج کی رات


نظر لکھنوی كا تعارف

نور لکھنوی كا تعارف 

یار پیلی بھیتی كا تعارف

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں