"گلوں کو رنگ چمن کو بہار دیتا ہے”
مرا خدا ہی جہاں کو "نکھار” دیتا ہے
وہی تو بگڑی ہوئی قِسمتیں بناتا ہے
وہی تو عزت و شہرت، وقار دیتا ہے
وہی حَسِین بناتا ہے ذہن کے افکار
وہی دِلوں کو سکون و قرار دیتا ہے
اسی کا رنگ ہر اک رنگ میں نمایاں ہے
وہی تو ابرِ بہاراں کو دَھار دیتا ہے
صدف میں گوہرِ یکتا وہی بناتا ہے
وہی بہار کو حُسنِ بہار دیتا ہے
اُسی کے حکم سے چلتا ہے کاروانِ حیات
وہ اپنے فضل سے سانسوں کے تار دیتا ہے
حقیقت اپنی ہے بے جان سے حجر جیسی
کرم اُسی کا ہے، کچھ اختیار دیتا ہے
حبیب اس نے دِیا، حد ہے اس کے احساں کی
کوئی کسی کو کہاں اپنا یار دیتا ہے
خدا کا نام زباں پر ہمیشہ رکھ عارف
یہ نام بِگڑے ہُوؤں کو سنوار دیتا ہے
غیاث الدین احمد عارف مصباحی