ہوئے ہیں مست جو پی کر شرابِ آزادی
ملی پھر اہلِ وطن کو ہے تابِ آزادی
کرم ہے رب کا اندھیرے سے وہ نکال دیا
چمکتا ورنہ کہاں آفتابِ آزادی
لہو ہمارا گرا ہے زمیں پہ تب جاکر
کھلا ہے اہلِ وطن پر یہ بابِ آزادی
وطن سےپیار ومحبت کادرس ہےاُس میں
"کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتابِ آزادی”
وطن پہ مرنے کا جذبہ بڑھایا علما نے
جگہ جگہ پہ کیے جب خطابِ آزادی
ڈٹے جو ہندو ، مسلمان ،سکھ ، عیسائی
تو لائی رنگ ہے تعبیرِ خوابِ آزادی
وہ جن کےخون سےبھارت کاہےچمن شاداب
در اصل ” نور” وہی ہیں شہابِ آزای
(ہوئے ہیں مست جو پی کر شرابِ آزادی)
(ملی پھر اہلِ وطن کو ہے تابِ آزادی)
نورالہدیٰ نور مصباحی