مصرعِ اعلیٰ حضرت پر اعتراض اور اس کا جواب

مصرعِ اعلیٰ حضرت پر اعتراض اور اس کا جواب :

السلام علیکم جنابِ من
امید ہے کہ آپ خیر و عافیت سے ہوں گے ، ہمارے یہاں چند دوستوں کے درمیان مسئلۂ فکِّ اضافت چھڑا ہوا تھا جس کا ابھی تک کچھ حتمی نتیجہ نہیں سامنے آیا ، ہمارے ایک پروفیسر دوست جو کہ اردو ادب میں گہرا مطالعہ رکھتے ہیں ، انہوں نے مولانا احمد رضا بریلوی رح کے نعتیہ مجموعہ حدائقِ بخشش کے ایک کلام سے ایک شعر پیش کیا
,, یعنی عثمان ، صاحب قمیصِ ہدیٰ
حلہ پوشِ شہادت پہ لاکھوں سلام ،،
اور اعتراض یہ کیا ہے
یہ مصرع بحرمتدراک مثمن سالم فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن میں ہے ، اس مصرع کی ترکیب ,, صاحب قمیصِ ہدیٰ ،، میں فکِّ اضافت ہے ، جو کہ معیوب ہے اور اساتذہ اسے ناپسند فرماتے ہیں ، مجھے امید ہے کہ آپ اس کا تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں گے کیونکہ بات آپ کے ممدوح کی ہے

جواب :
میرے گمان میں یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے مطلعِ حدائق پر عروضی اعتراض کیا تھا جس کا عروضی جواب میں نے اسی مجلس میں دیا تھا جس پر انہوں نے وعدہ بھی کیا تھا کہ آئندہ اعتراض کرنے سے پہلے وہ کسی صاحبِ فن سے گفتگو کریں گے یا کتبِ فنون کا گہرا مطالعہ کریں گے جس سے عقدہ حل ہو جاے ، اگر تو یہ وہی صاحب ہیں تو پھر میری یہ تحریر ان تک پہنچا دیجیے گا اور مجھ سے کیا گیا وعدہ بھی یاد دلا دیجئے گا ، خیر اب ہم آتے ہیں ان کے اعتراض کے جواب کی طرف
یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ الفاظ کی تقدیم و تاخیر کا تعلق جہاں علمِ بلاغت سے ہے وہیں علمِ نحو سے بھی ہے ، اگر ہم تقدیم و تاخیر کی نحوی جہت کو ملاحظہ کرتے ہیں تو پھر اس اعتبار سے مضاف و مضاف الیہ کی دو اقسام بنتی ہیں
1 : اضافتِ مستوی
2 : اضافتِ مقلوبی

اضافتِ مستوی :
اضافتِ مستوی میں مضاف پہلے اور مضاف الیہ بعد میں آتا ہے جیسا کہ تابِ عارض ، یہاں تاب مضاف اور عارض مضاف الیہ ہے ، پھر اضافتِ مستوی مزید دو انواع کی طرف منقسم ہو جاتی ہے
1 : اعلانِ کسرۂ اضافت
2 : رفعِ کسرۂ اضافت
نوعِ اوّل : میں مضاف و مضاف الیہ میں کسرۂ اضافت کے وجود کو عالمِ موجود میں ظاہر کیا جاتا ہے جیسا کہ عمرِ خضر ، اس میں عمر مضاف اور خضر مضاف الیہ ہے ، ان دونوں کے درمیان کسرۂ اضافت کا اعلان ہے جس سے مضاف و مضاف الیہ میں رشتۂ مواخات قائم کیا گیا ہے
نوعِ ثانی : میں مضاف و مضاف الیہ کے درمیان سے کسرۂ اضافت کے وجود کو عالمِ عدم میں پہنچا دیا جاتا ہے جیسا کہ دین محمد ، اضافتِ مستوی کی یہی نوعِ ثانی فکِّ اضافت کے مسائلِ ذوقیہ سماعیہ کا مبدء بنتی ہے

اضافتِ مقلوبی :
یہ مستوی کی ضد ہے ، اس میں مضاف الیہ پہلے جبکہ مضاف بعد میں آتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ مضاف الیہ و مضاف کے درمیان سے کسرۂ اضافت خود بخود مقامِ فنا میں چلا جاتا ہے جیسا کہ سخن دوست ، اصل میں تھا دوستِ سخن ، سخن مضاف الیہ ہے کہ اس کی طرف دوست کی اضافت ہوئی اور دوست مضاف ہے کہ سخن کی طرف اضافت ہوئی ، یہاں صورتِ مقلوبی کی وجہ سے دونوں کے درمیان سے کسرۂ اضافت خود بخود معدوم ہوگیا ہے

وجوہِ انعدامِ کسرۂ اضافت :
کسرۂ اضافت تین صورتوں میں پایۂ ترکیب سے گرتا ہے
1 : ضرورتِ شعری کی وجہ سے
2 : کثرتِ استعمال کی وجہ سے
3 : غلبۂ اسمیت کی وجہ سے

مولوی نجم الغنی رامپوری کا مؤقف :
مولوی نجم الغنی نے بحر الفصاحت میں مخالفتِ قیاسِ لغوی کے تحت آٹھ قسمیں ذکر کی ہیں جن میں فکِّ اضافت کو بھی داخل کیا ہے ، اور پھر لکھتے ہیں
,, بعض ہٹ دھرم شاعروں نے یہ مسئلہ گھڑ رکھا ہے کہ ساکن کو متحرک اور متحرک کو ساکن باندھنا اور الفاظِ مخالفتِ قیاسِ لغوی کا استعمال کرنا درست ہے ،،
اس پر انہوں نے مختلف اساتذہ کے اشعار بطورِ دلیل پیش کیے ہیں ، ملاحظہ فرمائیے
ایاز محمد خان بھوپالی کا مصرعِ شعر ہے
جب آلہ حمدِ ربِ خدا کا یہ حال ہو
یہاں آلۂ حمد میں فکِّ اضافت ہے
میرٓ کا مصرعِ شعر ہے
تاقیامت وہ رہے مالک رقاب
یہاں مالکِ رقاب میں فکِّ اضافت ہے
میرٓ کا ہی مصرعِ شعر ہے
دلِ شب سے ہردم صدا الاماں ہے
یہاں صداے الاماں میں فکِّ اضافت ہے
میر کا ہی مصرعِ شعر ہے
یہی قصد ہے بندہ درگاہ کا
یہاں بندۂ درگاہ میں فکِّ اضافت ہے
انشاءٓ کا مصرعِ شعر ہے
میکدے میں دو سہ قرطہ مئے گلفام ہے
یہاں قرطۂ مئے میں فکِّ اضافت ہے
ناسخ کا مصرعِ شعر ہے
اسطقسات و موالید و جواہر خمسہ
یہاں جواہرِ خمسہ میں فکِّ اضافت ہے
ہوسٓ کا مصرعِ شعر ہے
کرتا تھا وہ گفتگو پریشاں
یہاں گفتگوۓ پریشان میں فکِّ اضافت ہے
مفتون کا مصرعِ شعر ہے
فیض بخش و قدرداں اہلِ ہنر
یہاں قدردانِ اہلِ ہنر میں فکِّ اضافت ہے
نعیمٓ کا مصرعِ شعر ہے
خانۂ زنجیر کا دیوانہ ، صاحب خانہ ہے
یہاں صاحبِ خانہ میں فکِّ اضافت ہے
داغ دہلوی کا مصرعِ شعر ہے
ہوتا ہے جس کی ذات سے صاحب وقار عیش
یہاں بھی صاحبِ وقار میں فکِّ اضافت ہے
ایسے ہی بے شمار اساتذہ کے اشعار ہیں کہ جن میں ترکیب فکِّ اضافت سے آئی ہے چاہے وہ مضاف و مضاف الیہ ہوں یا موصوف صفت یا مبدل و مبدل منہ ہوں ، مولوی نجم الغنی نے اس امر کو مخالفتِ قیاس لغوی کے تحت داخل کیا ہے

میرا مؤقف :
میرا مؤقف وہی ہے جو علامہ تفتازانی کا موقف ہے ، علامہ مختصر المعانی میں لکھتے ہیں
والمخالفۃ ان تکون الکلمۃ علی خلاف القانون مفردات الالفاظ الموضوعۃ اعنی علی خلاف ماثبت عن الواضع نحو الاجلل بفک الادغام فی قولہ ، الحمدللہ العلی الاجلل ، والقیاس الاجلّ
,, اور مخالفتِ قیاسِ لغوی یہ ہے کہ کلمہ الفاظِ موضوعہ مفردہ کے ضابطہ کے خلاف ہو ، یعنی اس کے خلاف ہو جو واضع سے ثابت ہے ، جیسے اجلل بغیر ادغام کے ، جبکہ اجلل قیاساً اجلّ ہے ،،
اب صاحبِ بحر الفصاحت نے فکِ اضافت کو قیاسِ لغوی کے تحت داخل کیا ہے جبکہ یہ الفاظِ موضوعہ مفردہ کی قبیل سے نہیں بلکہ مرکبِ کلمات کی قبیل سے ہے اور علامہ تفتازانی نے مخالفتِ قیاسِ لغوی میں قید الفاظِ موضوعہ مفردہ کی لگائی ہے لہذا مولوی نجم الغنی کے مؤقف کو درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا
متقدمین و متاخرین بلغا نے جب بھی مخالفتِ قیاسِ لغوی کی تعریف و مثال پیش کی ہے تو وہاں الفاظِ موضوعہ مفردہ کی قید لگائی ہے اور مثال تعریف کے مطابق دی ہے جیسا کہ متنبی کے اس شعر میں دیکھیے
ان بنی للئام زھدۃ
مالی فی صدورہم من موددۃ
,, بے شک میرے بیٹے نکمے اور بے رغبتی کرنے والے ہیں ان کے دل میں میری محبت ذرہ برابر بھی نہیں ہے ،،
اس شعر میں لفظِ موددۃ پر غور کیجیے ، حالانکہ قاعدۂ صرفی یہ ہے کہ جب دوحرف ایک جنس کے جمع ہوں تو ان کا آپس میں ادغام کیا جاتا ہے ، تو صرفی قاعدہ کے مطابق مودّۃ ہونا چاہیے تھا ، لیکن یہاں کلمۂ مفردہ میں فکِّ ادغام کیا گیا ہے

فکِّ اضافت اور اعلیٰ حضرت کا مؤقف :
فتاوی رضویہ کتاب الشتی میں مذکور ہے ، اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے فکِّ اضافت سے متعلق ایک اعتراض کے جواب میں فرمایا
,, حق ہے معراجِ محمد دیں پناہ ، صلی اللہ علیہ وسلم ، فکِّ اضافت پر اعتراض بے جا ہے ، اگر فکِّ اضافت نامعقول ہو تو دیں پناہ کو صفت کیوں مانتے ؟ بلکہ بحذفِ مبتدا جملہ مستقلہ مدحیہ ہے ، یعنی وہ دیں پناہ ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ، اس کے نظائر خود قرآنِ عظیم میں ہیں ،،

مصرع اعلیٰ حضرت میں مرکب کلمات :
اہلِ زبان سے کلمات کی بندش و ترکیب سے متعلق دو باتیں سامنے آتی ہیں
1 : وہ تراکیب اپنی اصل ہئیتِ بندش میں تواتر سے استعمالِ اساتذہ میں ہیں
2 : وہ تراکیب اہلِ زبان کے تصرف سے متغیر مستعمل ہیں
پہلی قسم میں تو کوئی ایسی بات نہیں کہ جس پر گفتگو کی جاے البتہ دوسری قسم میں اہلِ زبان کے ذوق کو ترجیح دی جاتی ہے کہ اہلِ زبان جس ترکیب کو جس تغیر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں اسے بے چون چرا صحیح مان لیا جاتا ہے ، پھر تغیر کی مختلف جہتیں ہیں ، کبھی مرکب ایک فارسی لفظ اور ایک ہندی لفظ سے بنتا ہے ، جیسے ,, نیک چلن ،، کبھی مرکب ایک عربی اور ایک ہندی لفظ سے بنتا ہے جیسے ,, عجائب گھر ،، کبھی مرکب ایک عربی اور ایک فارسی لفظ سے بنتا ہے جیسے ,, کور باطن ،، کبھی مرکب دو ہندی الفاظ سے بنتا ہے جیسے ,, منہ پھٹ ،، کبھی مرکب دو فارسی الفاظ سے بنتا ہے جیسے ,, تنگ دست ،، کبھی مرکب دو عربی الفاظ سے بنتا ہے جیسے ,, قبول صورت ،،
آپ ان تمام متغیر مرکبات میں غور کریں تو آپ کو کہیں بھی کسرۂ اضافت نظر نہیں آۓ گا ، ایسے ہی بے شمار مرکبات ہیں کہ جن میں تغیر اہلِ زبان کے ذوق کے مرہونِ منت ہے ، اب آپ مصرعِ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ میں دو لفظوں ( صاحب ، قمیص ) پر غور کریں ، دو عربی الفاظ ہیں اور ان میں کسرۂ اضافت نہیں ہے یعنی فکِّ اضافت ہے
اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے مؤقف سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فکِّ اضافت کلام میں سہولت و روانی کے حسن کی زیادتی سے عبارت ہے نہ کہ کوئی عیب ہے ، اگر عیب ہوتا تو اساتذہ اور اہلِ زبان سے اس کی لامتناہی امثلہ وجود میں نہ آتیں ، لیکن فکِّ اضافت اگر ذوقِ سلیم و طبعِ لطیف اور سمعِ اہلِ زبان کے خلاف ہو تو ضرور معیوب ہے ، اعلیٰ حضرت کی ترکیبِ مصرع ,, صاحب قمیص ،، میں جو فکِّ اضافت ہے وہ نہ تو ذوقِ سلیم و طبعِ لطیف کے خلاف ہے اور نہ ہی سمعِ اہلِ زبان پر گراں بار ہے بلکہ اس کا استعمال تو خود اساتذہ و اہلِ زبان کے ہاں بکثرت موجود ہے ، میرے نزدیک مصرعِ سلام پر ایسا اعتراض بے جا اور اصول و ادب سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے

بندۂ لاشئ
میرزا امجد رازی


 

کھلتا ہے بابِ عشرتِ میخانۂ رسول

ایک تصویرِ محبت تھی کہ زندہ ہوگئی

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has One Comment

جواب دیں