جیسے چاہا تھا کہاں ویسے گزارا موسم
مجھ کو لوٹا دے جوانی کا سہانا موسم
میرے بچپن کے کھلونے مرے ساتھی دے دے
میرے مولا مجھے لوٹا دے پرانا موسم
جس میں آتے ہیں نظر خواب ہمیں پریوں کے
دے دے نانی کی کہانی سا وہ پیارا موسم
پھول سے تتلی سے ہوتی ہے محبت جس میں
کتنی جلدی وہ گزر جاتا ہے سارا موسم
جس کی فطرت میں تغیر ہے بہت تیری طرح
مجھ کو وہ شخص سمجھ میں نہیں آتا موسم
میں نے سمجھایا تھا مت لکھ وہ کہانی جس میں
ایک حسرت میں گزر جاتا ہے پورا موسم
زینؔ یہ لوگ جو ہوتے ہیں محبت والے
ان کو ملتا ہے محبت کا ادھورا موسم
(جیسے چاہا تھا کہاں ویسے گزارا موسم)
(مجھ کو لوٹا دے جوانی کا سہانا موسم)
سید انوار زینؔ