گھر میں بیٹھا چھپا کے رو کرکے
مجھ کو بدنام چار سو کر کے
کر لیا اپنا مجھکو دیوانہ
چند لمحے میں گفتگو کر کے
آ ذرا بخش دے شفا مجھ کو
اپنے ہاتھوں سے مجھ کو چھو کر کے
زخم اپنے چھپایا کرتا ہوں
دامن چاک کو رفو کر کے
قلب حیرت زدہ ہؤا اس دم
جب پکارا تھا اس نے تو کر کے
کرتا رہتا ہوں گفتگو اکثر
تیری تصویر روبرو کر کے
دیکھ لے شمسی اک جھلک تجھ کو
گھر سے نکلا یہ آرزو کر کے
فیضان شمسی مرکزی
غزل ہے غیر مردّف، ہے قافیے کی کشاد