منور لکھنوی كا تعارف
نام: بشیشور پرشاد
تخلص: منور لکھنوی
تاریخ ولادت: 7 جولائی 1897
جائےولادت: لکھنؤ، اترپردیش، بھارت
تعلیم: باقاعدہ طور پر جناب منور لکھنوی نے صرف انٹر پاس کیا مگر آپ نے فارسی، عربی، اردو، سنسکرت اور انگریزی میں بھی مطالعہ کے ذریعے مہارت حاصل کی۔
جناب منور لکھنوی نے شاعری کا شوق وراست میں پایا تھا۔ منور لکھنوی کے والد منشی دوارکا پرشاد "افق"، چچا منشی رام سہائے "تمنا"، منشی ماتا پرشاد اور ماموں جگدمبا پرشاد "قیصر” کا شمار خوش فکر شعراء میں ہوتا تھا۔
جناب منور لکھنوی کثیرالتصانیف شعراء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ آپ کی تقریباً چوبیس کتابیں منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ متعدد تراجم بھی زیور طباعت سے آراستہ ہوئے۔
جناب منور لکھنوی کا مذہب اسلام کی ثقافت سے کتنا گہرا تعلق تھا اس بات کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ منور لکھنوی نے قرآن مقدس کے بعض حصوں کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔
جناب منور کی نعتیہ شاعری کو اگر صاحب "بہر زماں بہر زباں” کی زبانی سمجھیں تو یہ پیرا گراف کافی ہوگا۔
” جناب منور پرخلوص عقیدت کے ساتھ دربار نبوی میں نذرانہ عقیدت ومحبت پیش کیا ہے. ان کے کلام سے فکر و نظر کی وسعت اور حرف و لفظ پر ان کی دسترس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے"۔
نمونہ کلام:
” ایک نیا پیغام"
بانی اسلام اے خورشید تابان عرب
اے محمد مصطفی جان عرب، شان عرب
ظل اقدس میں پھلا پھولا گلستان عرب
جگمگایا نور وحدت سے بیابان عرب
آپ کے پیغام کی بنیاد تھی الہام پر
اک نئی دنیا بسا ڈالی خدا کے نام پر
اپنے مسلک کے محافظ اپنی امت کے کفیل
سینۂ شفاف کی خاک مدینہ ہے دلیل
آپ نے کر دی نجات روح کی پیدا سبیل
حشر میں اہل صفا کے آپ ہی ہوں گے وکیل
لاکھ کے ضوفشاں تھے دیدۂ پرنور میں
روشنی پیدا نہ تھی ایسی چراغ طور میں
آپ پر نازل خداے پاک نے قرآن کیا
سرمۂ توحید سے وا دیدۂ عرفاں کیا
آشکارا زندگی کا جو ہر پنہاں کیا
پیکر اقدس کو رشک کعبۂ ایماں کیا
جو نہ سمجھیں آپ کا رتبہ وہ اہل دل نہیں
اور کوئی جادۂ تسلیم کی منزل نہیں
دانا ہے چشم ضمیر اب تک نہ صاحب دل ہوں میں
دور ہے کوسوں جو بیداری سے وہ غافل ہوں میں
ناشناس رازِ پنہانِ حق و باطل ہوں میں
کیسے پھر اسلام کی تفہیم کے قابل ہوں میں
گو مسلمان میں نہیں پر قائل اسلام ہوں
کیوں کہ مردان خدا کا بندۂ ہے دام ہوں
بانیِ اسلام! خوں اسلام کا ہوتا ہے آج
خندہ زن حالت پہ دین پاک کی دنیا ہے آج
پھر دلوں میں گمرہی کی کیفیت پیدا ہے آج
رازداں اسلام کا اسلام میں عنقا ہے آج
بے خبر قرآن کے معنی سے کچھ میں ہی نہیں
عظمت اسلام سے واقف مسلمان بھی نہیں
جانتے ہیں راز مردان خدا اسلام کا
ہیں سمجھتے مرتبہ اہل صفا اسلام کا
ہے فقط عشق الٰہی مدعا اسلام کا
اور کچھ مقصد نہیں اس کے سوا اسلام کا
ہو بنا نفرت پہ جس کی یہ وہ مذہب ہی نہیں
دوسروں سے ترک الفت اس کا مطلب ہی نہیں
خون کافر پر نہیں حصر و قیام اسلام کا
اس سے مستحکم نہیں ہرگز نظام اسلام کا
حب عالمگیر سے چمکا ہے نام اسلام کا
ورنہ میں کرتا نہ ہرگز احترام اسلام کا
وید میں تعلیم جو کچھ ہے وہی قرآں میں ہے
نقص اگر کچھ ہے تو فہم و دانش انساں میں ہے
نوٹ: پانچویں اور چھٹے مصرع کے مفہوم سے اتفاق نہیں ہے۔
کھیل کیوں سمجھا ہے کچھ اہل شریعت نے اسے
طاق پر رکھا ہے کیوں اہل عادت نے اسے
کر لیا قبضے میں ارکان حکومت نے اسے
کر دیا بدنام ارباب سیاست نے اسے
جس کا بانی آپ سا ہادی ہے یہ وہ دین ہے
اس کی پابندی نہ کرنا آپ کی توہین ہے
کیوں ہیں تاویلیں یہ الٹی آپ کے احکام کی
صبح نورانی میں کیوں شامل ہے ظلمت شام کی
پھر ہو عظمت آشکارا آپ کے پیغام کی
لیجیے آکر خبر پھر عالم اسلام کی
نام پر مذہب کے ظلم و و جور کی بدعت نہ ہو
راہ لے بے راہ یعنی آپ کی امت نہ ہو
This Post Has 2 Comments
سبحان الله
تعارف بھی خُوب ہے