نعت کالازمی اورظاہری تیورکیاہو
آیۂ و رفعنا لک ذکرک نے کلی طور پر واضح کردیا ہے کہ حضور کے ذکرکے مدارج روز افزوں ہیں۔ محویت میں، کیفیت میں، نثر میں، نظم میں، ہرطور سے یاد سرکار اور ذکر سرکار کی روشنی بکھری ہے۔ حضور کی بارگاہ میں مدحت کے گل نچھاور ہورہے ہیں، انھیں کے جلوؤں سے آفاق عالم درخشاں ہے، انھیں کی عطر بیزی سے گلستان جہاں عنبر بار ہے۔
انھیں کی بو مایۂ سمن ہے انھیں کاجلوہ چمن چمن ہے
انھیں سے گلشن مہک رہے ہیں انھیں کی رنگت گلاب میں ہے
نعت نگار کا ایک بڑا حلقہ بڑی تن دہی اور اخلاص و رضاکے ساتھ نعت کی ترویج واشاعت ،توسیع و تنشیر اور حضور سے اپنی والہانہ محبت کے اظہار میں لگا ہے سب کی اپنی انفرادی کیفیت ہے۔ ہرایک کا اپنا الگ الگ رنگ ہے جس کی تجسیم وتشکیل شعری پیراے میں کرتے ہیں۔
صنف نعت اصنافِ سخن میں سب سے ممتاز اور اعلی ترین صنف ہے جوپذیرائی اس صنف کوحاصل ہوئی دوسرے کواس کا عشر عشیربھی نصیب نہیں ہوا۔ زبان وبیان کی طلاقت سے بظاہر آسان لیکن باطنی لوازمات کی تکمیل اور حدود و قیود کی پابندی کومدنظررکھتے ہوئے یہ مشکل ترین صنف ہے اس لیے یہ امر ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ نعت کا لازمی تیور اور اسلوب حد درجہ حزم و احتیاط کامتقاضی ہے۔ ہم نعت کی راہ میں بے محابا نہیں چل سکتے یہ دشوار ترین راہ ہے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کےاس اقتباس سے آپ اندازہ لگاٸیں:
"حقیقتاً نعت شریف کہنا بڑا مشکل کام ہے جس کو لوگوں نے آسان سمجھ لیا ہے اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے۔ البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں صاف راستہ ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے۔ غرض حمد میں اصلاً حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب حد بندی ہے۔”
یہ منزل عشق کی منزل ہے مگر یہاں وجد میں بھی ہوش رکھناہے خماری میں بھی ادب کادامن نہیں چھوڑناہےسرشاری میں بھی حضوری کےمزے لیناہے۔
عہد حاضر میں جہاں نعتیہ شاعری کے باب میں گراں قدر اضافہ ہواہے نعت نے فروغ وارتقا کے انخلا کوپرکیا ہےاور اس کے فیوض و برکات سے ایک آفاق کو متعارف کرایاہے وہیں یہ بھی المیہ ہے کہ کچھ بے اعتدالیاں اور بے ہنگمیاں بھی رواج پاگئی ہیں۔ زبان وادب کے زورکےاظہارکے لیے نعت کی شائستگی اور شستگی سے بھی انحراف کیاجارہاہے نٸی ردیفوں اور نٸے قافیوں کی پذیرائی اور تشہیرکے نام پر نعت کی کیفیات سے بھی صرف نظرکیاجارہاہے ہمیں یہ سمجھناہوگاکہ آخر نعت کا تقاضہ کیاہے؟ ہماری نعت نگاری کامقصد کیاہے؟
نعت سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توصیف وتمدیح مقصود ہونی چاہیے۔ مطمح نظر خوشنودی حضور صلى الله عليه واله وسلم اور تقرب محبوب ہو۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارے لہجے میں اخلاص کا رنگ، نیاز کی کیفیت، ادب کی چاشنی، وفور خیال اور زبان وبیان کاحسن بھی لازمی ہو۔
جس سرعت کے ساتھ لوگوں کارجحان نعت کی طرف بڑھ رہاہے یہ خوش آئندبھی ہے اور کار آمدبھی۔ اگر نعت میں سیرت کے مضامین کو کثرت کے ساتھ پرویا جائے تو اس کا بڑا گہرا اثر پڑےگا کیوں کہ نعت کی ہیئتی اور کیفیتی خوبیاں یہ ہیں کہ یہ دل میں گھر کرتی ہے ، فکرمنور کرتی ہے، ذہن میں شفافیت کانور بھرتی ہے۔ اگر سیرت کے مضامین ہمارے دل میں سرایت کرکے ذہن کوبالیدہ اور شعور کو جلا بخشیں تو ہماری زندگی میں بڑی آسانی سے انقلاب آجائے گا اس لیے حسن وجمال کے تذکرے کے ساتھ اخلاق رسول، سیرت مصطفی، شماٸل مصطفی، عدل وانصاف، طرز معاشرت، پیغام اخوت ،شفقت ومروت، امانت وصیانت جیسے معاملات احسن کواگر واضح طورپر نعت میں شامل کیےجائیں تو مقصد نعت بھی پورا ہوگا اور نعت کاانتفاع بھی حاصل ہوگا۔
آیت قرآن کی سچی وضاحت نعت ہے
ان کا انداز بیاں طرز عبادت نعت ہے
جانورسے بات کرنا مسکرانانعت ہے
پتھروں کاجھوم کرنغمہ سنانانعت ہے
قول وفعل مصطفیٰ کاہرترانہ نعت ہے
ان کےاخلاق کریمانہ کاجلوہ نعت ہے
(توفیق احسن برکاتی مصباحی )
غرضیکہ نعت محض حسنِ بیان اور طلاقتِ لسانی کے مظاہرے اور نت نئے قافیوں اور ردیفوں کے انسلاک کا نام نہیں۔ نعت جس طرح اپنے مقصد کے لحاظ سے آفاقی ہے۔ بالکل اسی طرح طرزِ اظہار کے اعتبار سے اسے پیغامی بنانا ضروری ہے تاکہ قاری و سامع نعتیہ اشعار کی زیریں رَو میں پنہاں تجلیوں سے حسنِ زندگی اور دائمی سرخروئی حاصل کرے۔ نعت کے وسیلے سے تہذیبی اور ثقافتی تطہیر کا سامان بھی مہیا ہو نہ کہ محض ہماری نعت گوئی بازیچۂ الفاظ بن کر رہ جائے۔
از۔واصف رضاواصف مصباحی (مدھوبنی بہار)
نعتیہ شاعری میں فداکاری وخودسپردگی کے مفہوم