ننھے بچوں کو بھی ظالم نے کیا خون سے تر
نم ہیں آنکھیں مری اور غم سے ہے پھٹتا سینہ
سخت دشوار ہے اے رب دو عالم جینا
رات بھر نیند نہیں آتی نہ آتا ہے قرار
دیکھ کر ارض فلسطیں پہ قیامت کا سما
ننھے بچوں کو بھی ظالم نے کیا خون سے تر
اور پامال کیا ماؤں کی بہنوں کی حیا
آسرا اہل فلسطین لگائے ہوئے ہیں
بھیج دے پھر سے خدا یا کوئی ایوبی سا
جس جگہ پر شہ بطحی نے امامت کی تھی
آج اس قدس کے اطراف میں ہے آہ بکا
نوجوانوں کے جنازے ہیں پڑے سڑکوں پر
کوئی تدفین کا ساماں بھی نہیں ہے مولا
جو مسلمانوں کا تھا قبلۂ اول وہ آج
ہائے افسوس کہ لاچار کھڑا ہے تنہا
یاخدا پھر سے ابابیل سا لشکر تو بھیج
تکتی ہے تیری مہربانی کا اقصیٰ رستہ
ہیں تماشائی بنے سارے سلاطین جہاں
بے سہارا ہیں کھڑے اہل فلسطیں مولا
پانی پانی کو بھی محتاج ہیں سب پیر و جواں
فضل فرما دے خدا صدقۂ شاہ بطحی
بخش دےبیت مقدس کو تو پھر آزادی
تجھ سے یہ شوق فریدی کی ہے عرضی مولی
…………….…………………………..
از
محمد شوقین نواز شوق فریدی
خانقاہ فریدیہ جوگیا شریف کھگڑیا انڈیا
This Post Has One Comment
بہت خُوب جنابِ عالی
بڑی عمدہ نظم کہی ہے فلسطین کے پس منظر میں _______
جاوید احمد خان جاوید
پربھنی ، بھارت