نصیب سے ہی ملے آفتاب آزادی

نصیب سے ہی ملے آفتاب آزادی
وگرنہ سب پہ نہیں کُھلتا باب آزادی

شہیدوں کا لہو مانگے حسابِ آزادی
ہے انتظار سبھی کو جوابِ آزادی

تُجھے خبر نہیں اسلاف کی کوئی اپنے
” کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتابِ آزادی "

بتاؤ کھوکلے وعدوں سے اُس کے کیا ہوگا
جو جانتا ہی نہیں ہے نصابِ آزادی

ہمارے ہاتھ سے مُشکل ہے چُھوٹنا لیکن
ہوائیں کھینچ رہی ہیں طنابِ آزادی

ہر ایک تار سے پُھوٹے گی روشنی آخر
ہو قید میں تو بجاؤ ربابِ آزادی

اکیلے شخص سے جاویدؔ یہ نہیں ممکن
ہمارا ساتھ ہے عِزّت مآبِ آزادی

(نصیب سے ہی ملے آفتاب آزادی)
(وگرنہ سب پہ نہیں کُھلتا باب آزادی)

جاوید احمد خان جاویدؔ
پربھنی ٬ مہاراشٹر ٬ بھارت
jawedkhan2011@gmail.com


تمھیں کہو کہ کہاں کھو گئ ہے آزادی

لہو سے کی ہے مرتب کتاب آزادی

نظر میں جن کی سمائے تھے خوابِ آزادی

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has 2 Comments

  1. جاوید احمد خان جاوید

    بہت شُکریہ ” گلوبل اُردو "

جواب دیں