نعتیہ شاعری میں فداکاری وخودسپردگی کے مفہوم
اصنافِ سخن میں اعلیٰ پاکیزہ اور نفیس ترین صنف نعت مبارک ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مدحت نگار بڑے والہانہ ، عاجزانہ اور فداکارانہ جذبے کے ساتھ حضور کی بارگاہ میں نعت کے گل ہزارہ نچھاور کررہے ہیں۔ تقدیسی صنف ہونے کی وجہ سے نعت کو ہر صدی ہر قِران میں پذیرائی حاصل ہوئی اور ہر دور میں صنف نعت کا تفوق ظاہر رہا عہدِ اولیٰ سے لے کر بشمول عہدِ وسطیٰ اب تک تیزگامی کے ساتھ مسافران نعت اپنے ہاتھوں میں نت نئے عناوین، انوکھے اسالیب، دلچسپ پیرایۂ بیان کی مشعل لے کر ترقی کی سمت گامزن ہیں۔
ایک نعت نگار کے لیے شفافیت خیال ، وفور عشق ، جذبۂ فراواں ، حزم و احتیاط ، اور سیرت آشنائی یہ تمام چیزیں کتنی ضروری ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں ہے ، چشم بینا ہو تو دیکھے ، گوش شنوا ہو تو سنے کیوں کہ یہ بارگاہ اہتمامِ شان چاہتی ہے ، یہاں لغزش نہیں یہاں ادب درکار ہے، یہاں صوت نہیں خاموشی مرغوب ومحبوب ہے۔
ہزار بار بشویم دہن زمشک وگلاب
ہنوزنام توگفتن کمال بےادبی ست
حرف کی تجسیم وتشکیل کے ذریعے بننے والے نعتیہ مفہوم کئی طرح کے ہوتے ہیں کوئی رخ زیبا کی مدح پر مبنی ہوتا ہے کوئی اخلاق وکردار کے پر ، کوئی عادات واطوار پر کوئی معاشرتی زندگی پراور کوئی عائلی زندگی پر مگر نعت کے اسی وسیع کینوس میں شعراے کرام کے یہاں کثرت کےساتھ خود سپردگی ، فداکاری کابھی مفہوم پایاجاتاہے
اور یہ حضور سے گہری وابستگی اور اٹوٹ ربط کو ظاہر کرتاہے نعت نگار کےیہاں اگر اخلاص کا وافر حصہ موجود ہو اور دل کے نہاں خانے میں عشق کی شمع روشن ہو تو اندرونی کیفیت ، عاجزی کا پیرہن لے کر خود سپردگی اور فداکاری پر مہمیز کرتی چلی جاتی ہے۔
اردو ادب کے نعتیہ ذخائر میں اضافہ کرنے والے شعراے نعت کے یہاں خود سپردگی اور فداکاری کا انداز نو بہ نو انداز میں جا بجا ملتا ہے
نعتیہ شاعری کو عروج و استحکام عطا کرنے میں اعلی حضرت امام احمد رضاخان بریلوی نے جو سنگ میل مرتب کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، ان کے یہاں خود سپردگی کے جلوے دیکھیے، عرض کرتے ہیں :
کروں تیرے نام پہ جاں فدا
جان فدا کرکے تسکین نہیں ملتی عاشق صادق کہتا ہے کہ نہیں نہیں صرف جان نہیں بلکہ
نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دوجہاں فدا کرنے کے بعد بھی عشق کی والہیت مزید فداکاری پر یوں مہمیز کرتی ہے کہ
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا
دوجہاں قربان کرنے کے بعد بھی دل بے چین ہے اور اب وہ کروروں جہاں فدا کرنا چاہتا ہے
کروں کیا کروروں جہاں نہیں
خود سپردگی اور فداکاری کا یہ عمدہ شہ پارہ یقیناً عاشق صادق کا وہ اظہاریہ ہے جو ہر اعتبار سے لائق تحسین ہے۔
اعلیٰ حضرت ہی کے ایک اور شعر میں اظہار فداکاری اور خودحوالگی کا یہ انوکھاپن دیکھےبنتاہے
ایسا گمادے ان کی ولا میں خدا ہمیں
ڈھونڈا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو
اس شعر میں عشق کی ایسی فراوانی اور جولانی جس کے تصور سے عرفان و حقائق کے درکھلنے لگتے ہیں ایک عاشق سرمست وسرشاری کی کیفیت میں ہے اور اس کیفیت کی افزائش اس قدرہے کہ جہاں وہ محبت رسول میں سرشار ہوکر خود کو بھی بھولنا چاہتا ہے
جان ودل یارب ہو قربان حبیب کبریا
اور ہاتھوں میں ہو دامانِ حبیب کبریا
جمیل قادری۔
عشق کی حدت وسوزش کو تیزکرنےکےلیے سرشاری اور وفور کیف ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے
یہاں دعائیہ رنگ ہے یہاں التجائی کیفیت ہے ایک مدحت نگار اپنے آپ کوکامل طور پر ایک ذات سے انسلاک واتصال کے لیے عاجزی و شوق کے ساتھ سراپانیاز ہوکر کہہ رہاہے اے رب جان ودل حضورکی بارگاہ میں قربان ہیں اوراس پرمستزاد یہ بھی آرزورکھتاہےکہ ہاتھ سے دامان مصطفوی نہ چھوٹے یہ سرمایۂ حیات یہ اثاثۂ زندگی ہے اللہ اللہ عشق کی ایسی کیفیت ایساآہنگ بندے کو عطاے الہی سے ہی نصیب ہوتا ہے
کچھ منتخب اشعارمزیددیکھیں
تمہارے قدموں پہ سر صدقے جاں فدا ہو جائے
نہ لائے پھر مجھے میرا خدا مدینے سے
مفتیِ اعظم ہند
خوب رویانِ جہاں تجھ پہ فدا ہوتے ہیں
وہ ہے اے ماہِ عرب حُسنِ دل آرا تیرا
استاذ زمن
مومن فداے نور و شمیم حضور ہیں
ہر دل چمک رہا ہے معطر ہے ہر دماغ
استاذ زمن
مرے آن والے مرے شان والے
ٔگدائی ترے دَر کی ہے شانِ عالم
اساذزمن
وہ کعبۂ سر ہے یہ قبلۂ دل وہ قبلہ تن ہے یہ کعبۂ جاں
سر اس پہ جھکا دل ان پہ فدا اور جان ان کی شیدائی ہے
مفتی احمد یار خان نعیمی
اس قبیل کے سیکڑوں اشعار نعتیہ شاعری میں ہمیں ملتے ہیں، لیکن اس مختصر تحریر میں اتنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے
حاصل گفتگو یہ کہ نعتیہ شاعری میں دگر مفہوموں کی بہتات کےساتھ ساتھ خودسپردگی اور فداکاری کے مفاہیم ومضامین کثرت کےساتھ شعرا کے یہاں پاے جاتے ہیں جوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت اور غایت عشق پر برہان ہے نعت میں جس قدر والہانہ پن آتاہے اس کی اثرانگیزی میں اسی قدر اضافہ ہوتا ہے پرت در پرت مصرعہ در مصرعہ لفظ در لفظ آہنگ اور خوش نمائی کاجہان آبادہوتاہے
نسیماجانب بطحاگزرکن
زاحوالم محمدرا خبرکن
توئی سلطان عالم یا محمد
ز روے لطف سوے من نظر کن
(نعتیہ شاعری میں فداکاری وخودسپردگی کے مفہوم)
از
واصف رضاواصف مصباحی مدھوبنی بہار
کرتے رہیں حضور کی مدحت ہزاربار
وفاخلوص و محبت کی کاٸنات وطن
This Post Has One Comment
Pingback: نعت کالازمی اورظاہری تیورکیاہو - Global Urdu