نظر میں جن کی سمائے تھے خوابِ آزادی

نظر میں جن کی سمائے تھے خوابِ آزادی
انہیں سے ہم کو ملی ہے شرابِ آزادی

وہ فضلِ حق ہوں کہ اشفاق یا وہ کافی ہوں
لہو سے اِن کے کھلا ہے گلابِ آزادی

زمانہ گرچہ نہ مانے مگر یہی سچ ہے
ہمیں ہیں شمس ہمیں ماہتابِ آزادی

ہر ایک باب ہمارے لہو سے روشن ہے
"کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتابِ آزادی”

پلایا جاتا اگر یونہی جامِ نفرت تو
کبھی نصیب نہ ہوتی شرابِ آزادی

خدا نے بخشا ہے ہم کو مزاج شاھینی
اسی لیے تو کیا انتخابِ آزادی

دعا کرو کہ چمکتا رہے سدا "عرشی”
ہمارے سر پہ یونہی آفتابِ آزادی

(نظر میں جن کی سمائے تھے خوابِ آزادی)
(انہیں سے ہم کو ملی ہے شرابِ آزادی)

نتیجہ فکر: غلام محی الدین جیلانی عرشی
متعلم جامعہ علیمیہ جمدا شاہی


کرو نہ ختم کتابوں سے باب آزادی

پِلایا اہل وطن کو ہے جامِ آزادی

یہ جشن ہم بھی منائیں بنامِ آزادی

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has One Comment

جواب دیں