نظم: جس دیس، از: فیض احمد فیض

نظم: جس دیس، از: فیض احمد فیض

 

جس دیس سے ماؤں بہنوں کو

اغیار اٹھا کر لے جائیں

جس دیس سے قاتل غنڈوں کو

اشراف چھڑا کر لے جائیں

جس دیس کی کورٹ کچہری میں

انصاف ٹکوں پر بکتا ہو

جس دیس کا منشی قاضی بھی

مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو

جس دیس کے چپے چپے پر

پولیس کے ناکے ہوتے ہوں

جس دیس کے مندر مسجد میں

ہر روز دھماکے ہوتے ہوں

جس دیس میں جاں کے رکھوالے

خود جانیں لیں معصوموں کی

جس دیس میں حاکم ظالم ہوں

سسکی نہ سنیں مجبوروں کی

جس دیس کے عادل بہرے ہوں

آہیں نہ سنیں معصوموں کی

جس دیس کی گلیوں کوچوں میں

ہر سمت فحاشی پھیلی ہو

جس دیس میں بنت حوا کی

چادر بھی داغ سے میلی ہو

جس دیس میں آٹے چینی کا

بحران فلک تک جا پہنچے

جس دیس میں بجلی پانی کا

فقدان حلق تک جا پہنچے

جس دیس کے ہر چوراہے پر

دو چار بھکاری پھرتے ہوں

جس دیس میں روز جہازوں سے

امدادی تھیلے گرتے ہوں

جس دیس میں غربت ماؤں سے

بچے نیلام کراتی ہو

جس دیس میں دولت شرفاء سے

نا جائز کام کراتی ہو

جس دیس کے عہدیداروں سے

عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں

جس دیس کے سادہ لوح انساں

وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں

اس دیس کے ہر اک لیڈر پر

سوال اٹھانا واجب ہے

اس دیس کے ہر اک حاکم کو

سولی پہ چڑھانا واجب ہے

فیض احمد فیض

نظم: جس دیس، از: فیض احمد فیض


فیض احمد فیض کون تھے؟ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں