نور لکھنوی كا تعارف
نام: کرشن بہاری
تخلص: نور لکھنوی
یوم ولادت: 8 نومبر 1925
جائےولادت: لکھنؤ، اترپردیش بھارت
اردو ادب کے مشہور ترین شعراء میں شمار کیے جانے والے نور لکھنوی نے بڑی تعداد میں عالمی مشاعروں میں بھی شرکت کی ہے۔
آپ نے استاد الشعراء محترم فضل لکھنوی کی شاگردی اختیار کی۔
آپ کا شعری مجموعہ "دکھ سکھ” آپ کی فن شاعری میں مہارت کی واضح ترین دلیل ہے۔
نور لکھنوی نے جہاں نظمیں اور غزلیں اپنی پوری مہارت کے ساتھ کہی ہیں، اسی طرح آپ نے نعت حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ کہی ہے۔
آپ کے نعتیہ کلام میں عشق و محبت کے ساتھ عقیدت کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔
نمونہ کلام: 611
کوئی مذہب تھا نہ ایماں تھا نبی سے پہلے
بھٹکا بھٹکا سا ہر انساں تھا نبی سے پہلے
کس کو معبود کی قربت کا شرف حاصل تھا
راز حق کس پہ نمایاں تھا نبی سے پہلے
مسئلے سلجھے تو جینے کا قرینہ آیا
آدمی کتنا پریشاں تھا نبی سے پہلے
بھر گئیں جھولیاں ایماں کے گہر سے ورنہ
آمدی خاک بداماں تھا نبی سے پہلے
شمع توحید کی جب تک نہ چلی تھی اے نور
سنتے ہیں کفر ہی ایماں تھا نبی سے پہلے
☆
معراج نبوت پاتی ہے پرنور زمانہ ہوتا ہے
معبود سے باتیں ہوتی ہیں اور بیچ میں پردا ہوتا ہے
آتے ہیں نبی جاتے ہیں نبی بستر پہ شکن پڑتی ہی نہیں
کٹ جاتی ہے جب معراج کی شب عالم میں سویرا ہوتا ہے
یہ ربط نبوت اور وحدت ہر حال میں یکساں رہتا ہے
جھکتی ہے جبیں کعبے کی طرف اور دل میں مدینہ ہوتا ہے
گلزار مدینہ کیا کہنا، بازار مدینہ کیا کہنا
ایمان کے سکے چلتے ہیں فردوس کا سودا ہوتا ہے
وہ نور خدا کا ٹکڑا تھا کس طرح بھلا ہوتا سایہ
مٹی سے بنایا جاتا ہے جس جسم میں سایہ ہوتا ہے
اک تجربہ ذاتی ہے میرا اب اس کو دعا کہیے کہ دوا
جو یاد نبی کو کرتا ہے بیمار وہ اچھا ہوتا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ذکر ہی تیرا حقیقت ہے رسول عربی
تری الفت ہی عبادت ہے رسول عربی
یہ بھی معراج محبت ہے رسول عربی
قلب انساں پہ حکومت ہے رسول عربی
تیرا ایمان محبت ہے رسول عربی
تیرا افسانہ حقیقت ہے رسول عربی
آج بھی جس کی ضیاؤں سے ہے روشن دنیا
تو وہی شمع رسالت ہے رسول عربی
جو خدا کا وہی انداز بیاں ہے تیرا
کتنی معبود سے قربت ہے رسول عربی
تیرے چہرے سے ضیا دیتا ہے نور توحید
تیرے جلووں میں بھی وحدت ہے رسول عربی
سر تو رکھا ہے ترے در کو سمجھ کر جنت
آگے اب نور کی قسمت ہے رسول عربی
(نور لکھنوی كا تعارف )