تازہ دم ہے آج بھی تم سے گلستانِ وطن
پیش ہے تم کو سلامی اے شہیدانِ وطن
ہم کو نفرت کی نظر سے دیکھنے والو! سنو!
ہم ہمیشہ سے رہے ہیں جانثارانِ وطن
دشمنِ امن و اماں تجھ سے نمٹنے کے لیے
سر بکف رہتے ہیں ہر لمحہ فدایانِ وطن
جس میں ہے رکّھی ہوئی امن و اخوت کی کتاب
رحلِ یکجہتی پہ رکّھا ہے وہ جزدانِ وطن
حضرتِ سلطان ٹیپو ہیں اگر دل کی طرح
خواجہِ ہندالولی ہیں بالیقیں جانِ وطن
پرچمِ ہندوستاں جھکنے نہ دینا تم کبھی
التجا ہے بس یہی تم سے، عزیزانِ وطن
یہ اثر ہے حق پرستوں کے لہو کا، آج بھی
خوشبوئے اُلفت لٹاتا ہے جو ریحانِ وطن
جنکی لو میں خون شامل ہے "حسن” اسلاف کا
اُن چراغوں سے ہے روشن یہ شبستانِ وطن
(تازہ دم ہے آج بھی تم سے گلستانِ وطن)
(پیش ہے تم کو سلامی اے شہیدانِ وطن)
حسن فردوسی