رسی تو جل چکی ہے ابھی تک نہ بَل گیا

دیکھا جو مجھ کو تیر نظر اس کا چَل گیا
لیکن میں اس کے وار سے بچ کر نکل گیا

اس کی کُلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ
رسی تو جل چکی ہے ابھی تک نہ بَل گیا

میں آشنا ہوں اس کے ہر اک قول و فعل سے
اُس نے کیا تھا وعدۂ فردا جو ٹَل گیا

عادی ہوں زندگی کے نشیب و فراز کا
تعمیر کر رہا ہوں وہی گھر جو جَل گیا

حالات سے ہمیشہ نَبرد آزما ہوں میں
ہر ہر قدم پہ ٹھوکریں کھا کر سنبھل گیا

ناز و نِعَم میں جس کے گزرتے تھے روز و شب
سَر سے ابھی نہ اُس کے خیالِ مَحل گیا

تھا عرصۂ حیات مرا تنگ اس لئے
آشوب روزگار میں بھی رہ کے پَل گیا

سوز دروں نے کردیا جینا مرا محال
” شاید جگر حرارت عشقی سے جل گیا "

تِنکے کا ڈوبتے کو سہارا ہے جس طرح
دلجوئی کی کسی نے تو برقی بَہَل گیا

احمد علی برقیؔ اعظمی


يه بھي پڑھيں:

اک ذکرِ وصلِ یار سے کیا کیا بدل گیا

سورج کا بخت شام کی چوکھٹ پہ ڈھل گیا

تنہائیوں میں بیٹھ کے کہنے غزل گیا

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں