روشنی علم کی بچوں کو دکھائی ہوتی
پھر حکومت نہ کبھی اپنی گنوائی ہوتی
کانپتا بید کی مانند زمانہ تم سے
لو در مولیٰ سے اے کاش لگائی ہوتی
خدمت دین کی ایوبی و خالد کی طرح
کاش آشفتہ سری تجھ پہ بھی چھائی ہوتی
حال پھردیش کا ہوتا نہیں ایسا ہرگز
جوت الفت کی اگر دل میں جگائی ہوتی
صرف اپنے ہی نہیں غیر بھی اپنے ہوتے
بات نرمی سے اگر تو نے بتائی ہوتی
تیری بیٹی نہ کبھی غیر سے شادی کرتی
الفت آقا اگر تونے سکھائی ہوتی
جب کہ ڈھائے تھے حریفوں نے مظالم کے پہاڑ
"کوئی بجلی ہی فلک تونے گرائی ہوتی”
خدمت دین ہی وؔافی کا مقدر ہوتا
کاش دنیامیں یہی اپنی کمائی ہوتی
غلام محی الدین وؔافی علیمی