تصور کو تصویر میں بدل دینے والا شاعر شمشاد شاد
میری خاک افتادہ ہستی کو سجانے، سنوارنے، نکھارنے، اور آگے بڑھانے میں جن مخلصین و محسنین کا محرکانہ کردار شامل ہے ؛ ان میں تصور کو تصویر میں بدل دینے والا شاعر شمشاد شاد صاحب کا نام بہت اہم ہے۔ پانچ سال قبل جب میں نے ( بذریعہ سوشل میڈیا) ان کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا تو مجھے شاعری کے حروف ابجد کی بھی صحیح معرفت نہیں تھی ؛ لیکن یہ ان کے اخلاص و انہماک اور دست کرشمہ ساز کا کمال ہی تھا کہ انھوں نے انتہائی کم وقت میں میرے اس سنگینی وجود پر آزری ہنر کاری کا مظاہرہ فرمایا اور اس تجسیمی و ترصیعی قالب میں سخن فہمی کی ایک نئی روح ڈال کر مجھے فکر و فن کی دنیا میں سانس لینے کے قابل بنایا۔ میں اپنے احسان شناس جذبات کے پیشِ نظر یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں کہ آج مجھ میں اردو شعر و ادب کی تفہیم و تخلیق کا جس قدر بھی جمالیاتی ذوق ہے؛ وہ انھیں کا مرہون منت اور پر خلوص راہنمائی کا نتیجہ ہے۔
تمہیدی طمطراق کو دیکھتے ہوئے آپ بصد شوق مجھ پر خود ستائی اور لن ترانی کا الزام عائد کر سکتے ہیں لیکن جب آپ شاد سر کی تخلیقی انفرادیت اور تربیتی صلاحیت کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں گے اور ان کی شخصیت ساز سرگرمیوں کے تئیں سنجیدگی سے سوچیں گے تو آپ بھی میری حقیقت بیانی پر” اٰمنا و صدقنا” کی ضرب لگائیں گے۔
زیرِ نظر مجموعۂ کلام "حرفِ اثبات” شاد صاحب کے فکر و فن کا مرقع اور علم و ادب کا عظیم سرنامہ ہے۔ پچھلے دنوں جب عید الاضحیٰ کی تعطیلی سرگرمیوں سے فارغ ہو کر مادرِ علمی لوٹا تو ایک رفیق نے بتایا کہ ڈاکیہ آپ کے نام کا کوئی پارسل دے گیا ہے۔ میں نے پارسل کھولا تو امکان کے عین مطابق شاد سر کا گلدستۂ محبت و شفقت پایا۔ ایک ہفتے تک برابر یہ کتاب زیرِ مطالعہ رہی بالآخر میرے ذوقِ نفیس اور طبعِ سلیم نے انگڑائی لی اور صریرِ خامہ کی گردش سے بیاض کی سفیدی مائل بہ سیاہ ہونے لگی۔
دبستان ظفر کلیم کا تربیت یافتہ یہ شاعر اردو ادب کی دنیا میں آج طاق کی حیثیت رکھتا ہے۔ان کی شعریات میں فکر و فن کا بہاو، زبان و ادب کا رچاو, لفظی بنت کاری، معنوی تہہ داری اور اسلوبیاتی نادرہ کاری کا منظر پرت در پرت نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں محض حسن و عشق، عشوہ و ادا اور ہجر و وصال کے ہی روایاتی مضامین کو نہیں برتا ہے ، بلکہ مناظرِ قدرت اور مظاہرِ فطرت کے ان گنت مضمر خاکوں میں معنوی رنگ بھرا ہے۔ وہ لفظی ہنر کاری میں اتنے ماہر ہیں کہ کسی بھی تصور کو تصویر کر دینا ان کے لیے معمولی بات ہے۔ شاد صاحب کے یہاں نہ تصنع ہے، نہ بناوٹ۔ وہ چیزوں کی صورت و شباہت اور حقیقت و ماہیت کے تئیں قاری کو کسی تذبذب یا پس و پیش میں ڈالنا گوارا نہیں کرتے؛ بلکہ شعور و ادراک سے متعلق سلسلۂ آگہی کی ایک ایک کڑی کو لوگوں پر آئینہ کر دینا چاہتے ہیں؛ تاکہ بشری احساسات کی تشکیل و تجسیم میں ژولیدہ بیانی اور ایہام طرازی سدِ راہ نہ ہو سکے۔ ان کی صاف گوئی کی مثال میں یہ غزل سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے:
لب سامنے کسی کے کہاں کھولتے ہیں لوگ
پیچھے تو شاہ کو بھی برا بولتے ہیں لوگ
معدوم ہو گئے ہیں جہاں سے وفا خلوص
رشتوں میں پھر بھی زہر مگر گھولتے ہیں لوگ
قرآں میں اتنی سخت ہدایت کے باوجود
افسوس لین دین میں کم تولتے ہیں لوگ
پہلے کی طرح فکر کے ساحل پہ بیٹھ کر
لفظوں کے موتی آج کہاں رولتے ہیں لوگ
ایماں کا امتحان لیا جائے تو یہاں
کمزور کشتیوں کی طرح ڈولتے ہیں لوگ
اوروں سے خیر چھوڑئیے, اس عہد میں تو شاد!
خود اپنے آپ سے بھی نہیں بولتے ہیں لوگ
تصور کو تصویر میں بدل دینے والا شاعر شمشاد شاد صاحب کے شعری تجربات کا دھارا دن بہ دن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ انتہائی دیانت داری کے ساتھ مشق و ممارست اور محنت و ریاضت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ شعر گوئی کے حوالے سے ان کے انہماک و استغراق کا اندازہ خود ان کے اس قول سے لگایا جاسکتا ہے کہ "جس دن میں کم از کم ایک غزل نہ کہوں مجھے نیند نہیں آتی”۔ یہ کوئی دعویِٰ محض نہیں کہ اس کی کوئی دلیل ہی نہ ہو۔ میں نے واٹس ایپ گروپ "مرکزِ ادب” میں ان کی پانچ سالہ activities کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کے مذکورہ قول کی تائید و تصدیق میں مجھ سمیت کم از کم "مرکزِ ادب” کے جمیع شرکا ضرور مثبت اور مستحسن رائے رکھتے ہیں۔
شاد صاحب کے تسلسلِ مشق ہی کا یہ نقطۂ اعجاز ہے کہ فنِ شعر و سخن کے تمام تر آہنی قوانین ان کے ہاتھوں میں پہنچ کر موم ہو جاتے ہیں اور بنجر ترین زمین کو بھی وہ شعری گل کاریوں سے بھر دیتے ہیں۔ حرفِ اثبات سے لیے گئے یہ چند اشعار ان کی قدرتِ کلام پر شاہدِ عدل ہیں:
جب جب تیری یاد میں تڑپے وجد میں آکر رقص کیا
آبادی سے دور گئے, چلّا چلّا کر رقص کیا
شرم سے جیسے پانی پانی ساحل اور نظارے تھے
دریا کی طغیانی نے جب باہر آکر رقص کیا
بیچ سڑک پر پیٹ کی خاطر اک معصوم کلی نے آج
درد کی پائل پاؤں میں پہنے برھا گاکر رقص کیا
کُن کہہ کر جب مالکِ کل نے دو عالم تخلیق کیے
مارے خوشی کے ہر ذرے نے صف میں آکر رقص کیا
کیف و مستی کے ویسے بھی شاد کہاں شوقین تھے ہم
لیکن اس کے پیار کی خاطر خواب میں جاکر رقص کیا
خود کو نہارتے ہوئے کس انہماک سے
جوشِ جنوں میں ہو گئی شیشے کے پار دھوپ
شوقِ نظر کو تابِ نظارہ بھی چاہیے
اے ناتواں نگاہ! نہ پیہم نہار دھوپ
کسی فن پارے کے دیر پا اور دور رس ہونے ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو, بلکہ اس میں آفاقیت و ہمہ گیریت کا رنگ پایا جائے۔ ادبی بقا کا یہ وہ رمز ہے جس کی معرفت کے بغیر کوئی فن کار قاری کے شعوری منظر نامے پر بہت دیر تک نہیں ٹھہر سکتا۔ لہذا ہر قلم کار کی یہ ادبی ذمہ داری ہے کہ وہ جذباتیت و برانگیخت سے حتی الامکان پرہیز کرے اور انفرادی فکر کی بجائے اجتماعی امور کی نمائندگی کا بیڑا اٹھائے۔ شاد صاحب کا شعری اختصاص اور اسلوبیاتی کمال اس اصول سے کلیۃً متعلق نظر آتا ہے۔ ان کی غزلیات فکری کثرت و وحدت کا حسین امتزاج پیش کرتی ہیں۔ وہ اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کو بھی اس طور پر بیان کرتے ہیں کہ ان کے اشعار ذاتی سطح سے بلند ہو کر آفاقی اقدار کا حامل بن جاتے ہیں۔ حرفِ اثبات میں موجود یہ دونوں غزلیں میری باتوں کی تصدیق کرتی ہیں:
لوگ بدحال ہیں, وحشت کا سماں ہے ہرسو
غور سے دیکھ! تباہی کا نشاں ہے ہرسو
لاشیں بکھری ہیں گلی کوچوں میں بےگور و کفن
بربریت کا فضاؤں میں دھواں ہے ہرسو
وہ ستم ڈھائے گئے ہم پہ کہ توبہ توبہ
اب بھی ہر ظلم کی تصویر عیاں ہے ہرسو
چپے چپے پہ یہاں موت بچھی ہے یارب!
جائیں تو جائیں کہاں خدشۂ جاں ہے ہرسو
زندگی تو یہ کہاں لے کے مجھے آئی ہے
سانس لینا بھی یہاں پر تو گراں ہے ہرسو
ساری دنیا پہ بہار آئے بھی تو کیا حاصل
دل کے گلشن میں ہی جب دورِ خزاں ہے ہر سو
میری نم دیدہ نگاہوں میں نہاں تھا کل تک
شاد اشکوں کا یہ جو سیلِ رواں ہے ہرسو
اجل کے داو سے بچ کر نکلنا خوب آتا ہے
چراغِ زندگی ہوں, مجھ کو جلنا خوب آتا ہے
ارادے عقل والوں کے بہت مضبوط ہوتے ہیں
انھیں دل کی بغاوت کو کچلنا خوب آتا ہے
بھروسہ تو بہت اس پر ہمیں اے شاد ہے لیکن
یکایک رنگ اسے اپنا بدلنا خوب آتا ہے
تصور کو تصویر میں بدل دینے والا شاعر شمشاد شاد صاحب ایک منجھے ہوئے اور قادر الکلام شاعر ہیں۔ قسامِ ازل نے انھیں بالغ نظری, بیدار مغزی اور فکری بالیدگی کے متاعِ گراں بہا سے وفور حصہ عطا فرمایا ہے۔ ان کے تخیلات و تفکرات کا دائرۂ پرواز اس قدر وسیع و عریض ہے کہ بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی ان کی شاہین مزاجی کو متاثر نہیں کر سکتی۔ ان کے یہاں مضامین و موضوعات کا ترفع بہ تمام و کمال پایا جاتا ہے۔ سماجی, معاشی, قومی, سیاسی, ادبی اور تہذیبی امور و مسائل سے متعلق شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو جس پر وہ سنجیدہ جہت سے نہ سوچتے ہوں۔ ان کے افکار و خیالات کی سبک گامی کے ساتھ ساتھ جب ہم پر ان کی لفظیات و اسلوبیات کا دروازہ کھلتا ہے تو ہماری حیرانی دو چند ہو جاتی ہے اور ان کی ندرت بیانی کا اعتبار و اعتقاد یکلخت بڑھنے لگتا ہے۔ اس حوالے سے کچھ اشعار دیکھیں, جن میں دریا جیسی روانی کا لطف ملتا ہے:
روش ان کی جداگانہ, رواج ان کے نرالے ہیں
بڑے شفاف چہرے ہیں مگر دل کے یہ کالے ہیں
گھٹائیں, پھول, خوشبو, چاندنی راتوں کی بیتابی
تری یادوں کے جانِ جاں یہاں کتنے حوالے ہیں
کبھی حق کے تحفظ میں مسلماں جاں لٹاتا تھا
زباں پر آج اس نے مصلحت کے قفل ڈالے ہیں
بھلا اس میں کوئی اب کیا کرے جو ڈس لیا تم کو
تمھی نے اپنی مرضی سے میاں یہ سانپ پالے ہیں
جہاں والو! دکھاوے کے یہ میٹھے بول رہنے دو
تمھارے رنگ یہ سارے ہمارے دیکھے بھالے ہیں
انھیں اے شاد ضد ہے وہ ہمیں نابود کر دیں گے
کسی کے چاہنے سے کیا, مگر ہم مٹنے والے ہیں?
اقرارِ وفا کرتی ہے نس نس تو ہمیں کیا
چلتا جو نہیں دل پہ تِرا بس تو ہمیں کیا
جب شامِ اَوَدھ پہلی سی رنگین نہیں ہے
دلکش بھی ہوئی صبحِ بنارس تو ہمیں کیا
رشتہ ہی نہیں اس سے تو اس شیشہ بدن کو
لوگوں کی نگاہیں بھی کریں مس تو ہمیں کیا
خلاقِ دو عالم کی کریں گے ہم اطاعت
دل میں ہے جو ابلیس کے کُھنّس تو ہمیں کیا
کم ظرفوں کو دنیا میں نمائش کے لیے شاد
حاصلِ ہے جو پیراہنِ اطلس تو ہمیں کیا
"حرفِ اثبات” شمشاد شاد کا اولین شعری مجموعہ ہے, تاہم اس کے فکر و فن کی پختگی, شعر و سخن کی بالیدگی اور طلسماتی پیرایۂ اظہار کو دیکھتے ہوئے یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ (ان شاءالله العزیز) مستقبل قریب میں ان کے شعری و ادبی حوالے کو استنادی حیثیت حاصل ہوگی۔
ع: قلم ایں جا رسید, سر بشکست!
ثاقب قمری مصباحی
بانکا، بہار، انڈیا