صورتِ شعر مرے دھیان میں آجاتا ہے
اِک تصور ہے جو عنوان میں آجاتا ہے
فرطِ جذبات میں کہتا ہوں جو "ربِّ اَرِنی”
"لَن تَرانی” کا خطاب آن میں آجاتا ہے
دیکھ لیتا ہوں جو اُس شوخ کی انگڑائی کو
یک بہ یک قوسِ قزح دھیان میں آجاتا ہے
شدّتِ ہجر نے ہر چند سیہ فام کیا
پھر بھی چہرہ مِرا پہچان میں آجاتا ہے
میری آشفتہ مزاجی کو ہے مرہم سے گریز
اِس لیے زخم نمک دان میں آجاتا ہے
طائرِ دل کو میں کرتا بھی ہوں آزاد اگر
لَوٹ کر سینے کے زندان میں آ جاتا ہے
جب مری نیند گھٹا ٹوپ اندھیرا مانگے
اِک اجالا سا شبستان میں آجاتا ہے
عالمِ وصل میں کیا جانیے کیسے یہ دل
ہجر کے حیطۂ امکان میں آ جاتا ہے
(صورتِ شعر مرے دھیان میں آجاتا ہے)
(اِک تصور ہے جو عنوان میں آجاتا ہے)