مجھے کیوں ناز ہے خود پر ، یقیناً جانتا ، تو ہے
ترے محبوب کا ہوں امّتی ، میرا خدا ، تو ہے
تو ہی خالق تو ہی مالک تو ہی رزاق ہے مولیٰ
کہ اٹھارہ ہزار عالم میں سب کو پالتا ، تو ہے
تجھے دیکھا ہے ، بے پردہ ، فقط محبوب نے تیرے
حقیقت یہ بھی ہے, ہر اک جگہ ، جلوہ نما ، تو ہے
یہ معراج عقیدت ہے یہی ایمان کامل ہے
کسی سے بھی دوا لیں ہم ، مگر دیتا شفا ، تو ہے
الٰہی مشکلوں میں مانگتے ہیں سب مدد تجھ سے
الٰہی مشکلوں میں سب کے دل کا آسرا ، تو ہے
نہیں کچھ ذکر کے قابل مرے اعمال نامے میں
الہی بخشنے والا مگر ، سب کی خطا ، تو ہے
یہی "جاوید” کا ایمان ہے ، کوئی بھی اے مولیٰ
کسی پردے میں پوشیدہ ہو سب کچھ دیکھتا تو ہے
جاوید صدیقی گونڈوی