تمہارا نام بس وردِ زباں ہے
وہ جِس کے دم سے تابندہ جہاں ہے
وحی مولیٰ کی اُس کا ہر بیاں ہے
ثنائے مصطفٰی ہی کی بدولت
حریمِ فکر میری ضو فشاں ہے
کسی سے کیوں کوئی اُمید باندھوں؟
تمہارے بن کوئی میرا یہاں ہے ؟
تمہاری یاد میں بیتاب ہے دل
تمہارا نام بس وردِ زباں ہے
خُدا کا قول بھی ہے اِس پہ شاہد
کہ تو رحمت برائے دو جہاں ہے
بلایا عرش پر مولیٰ نے تُجھ کو
تری محبوبیت سب پر عیاں ہے
تمہارے سامنے ہستی کا دعویٰ
"اب اتنی بھی ہمیں جرات کہاں ہے”
کرم کی اک نظر عرشی پہ اپنے
کہ تو ہی رحمتِ ربِّ جہاں ہے
غلام محی الدین ” جیلانی عرشی "