غزل: تمہارے لیے ( ذو قافتین )
ابرِ جاں سے شدید جذبہ ہے
شاخِ نخلِ امید فربہ ہے
کیا نہیں ہوں میں شوق سے لبریز
کیا نظر سے بعید کعبہ ہے
مجھ پہ لازم تھا زیر ہوجانا
تیرے حق میں مُفید غلبہ ہے
چومتا ہے بدن کی نرماہٹ
مجھ سے بہتر سعید جُبّہ ہے
سوۓ میخانہ رہبرِ کامل
فی الحقیقت سدید توبہ ہے
کھودتا جا ستم کے تیشے سے
میرے اوپر مزید ملبہ ہے
جسمِ بے مثل کی ریاست میں
لعلِ شیریں فقید صوبہ ہے
دوست احباب ہیں لحد ییکر
یعنی میرا جدید کُنبہ ہے
بولتا ہے اسد وہ مجھ سے ہی
میری ہر ہر شُنید خطبہ ہے
غزل: تمہارے لیے ( ذو قافتین )
کڑے ہیں ہجر کے لمحات اس سے کہہ دینا
This Post Has One Comment
واه، خُوب