یوں آج ہوئی مجھ سے بغلگیر اداسی

یوں آج ہوئی مجھ سے بغلگیر اداسی

ملتا ہے مجھے تحفہ ء تقدیر اداسی
ہوتی ہے مرے خواب کی تعبیر اداسی

جیسے کہ کسی بچے کو چمٹائے کوئی ماں
یوں آج ہوئی مجھ سے بغلگیر اداسی

بچپن سے مرا چاہنے والا ہے ہر اک درد
بچپن کے مرے دوست کی تصویر اداسی

گر مسئلہ ہوگا تو تمھارے لیے ہوگا
صاحب! مری الجھن کی ہے اکسیر اداسی

فرہاد سے بھی اونچی ملے مجھ کو بلندی
یوں دامن دل آ کے مرا چیر اداسی

آزردہ دلی ہے مری ہستی کا حوالہ
ہوتی ہے مری ذات کی تفسیر اداسی

سن جاں سے زیادہ ہے مشاہد! مجھے محبوب
سرمایہء کل ہاں! مری جاگیر اداسی

از: مشاہد رضا فیض آباد


زلف ، رخسار ، نازنیں آنکھیں

غمگین ہے دل اتنا کہ خوں روتی ہیں آنکھیں

شادؔ عظیم آبادی کی نعتیہ شاعری ‘ ظہورِ رحمت ‘ کے تناظر میں

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has 2 Comments

جواب دیں