آس گر اُن سے کبھی تُو نے لگائی ہوتی
تو یقیناً تری اُمید بر آئی ہوتی
اُنکے دیدار سے ملتی مرے دل کو راحت
اُنکی گلیوں میں اگر میری رسائی ہوتی
یوں سمٹتے نہیں سردی سے غریب و مسکیں
اُن کے تن پر بھی اگر ایک رضائی ہوتی
دیکھ کر صاحبِ مسند کے ستم کو اے کاش
"کوئی بجلی ہی فلک تو نے گرائی ہوتی”
یوں سرِ عام مسلماں نہیں مارے جاتے
ظلمِ ظالم پہ جو آواز اٹھائی ہوتی
"متحد ہو تو بدل ڈالو نظامِ گلشن”
کاش یہ بات ہمیں بھی سمجھ آئی ہوتی
مطمئن رہتا پریشاں نہیں ہوتا عرشی
اُس حسیں سے نہ اگر آنکھ ملائی ہوتی
غلام محی الدین جیلانی عرشی