اٹھائے امن کا پرچم یوں نوجوان چلے

اٹھائے امن کا پرچم یوں نوجوان چلے
ستم کے تیروں سے چھلنی لہو لہان چلے

کفن کو باندھ کے سر سے خلاف ظلم و ستم
دو چار لوگ نہیں پورے خاندان چلے

اجڑ نہ جائے کہیں مئے کدۂ محبت کا
اِسے بچانے کو ساقی و بادہ خوان چلے

یہ چند الو جو ہندی چمن میں آبیٹھے
بہار و بلبل و گل ہی کیا باغبان چلے

شریک غم ہیں اے فصل بہار ہندی ترے
لہو سے سینچنے والے وہ پاسبان چلے

اے خاک ہندی فدا تجھ پہ جان و تن کر کے
وہ سرفروش وطن سوئے آسمان چلے

سمیر جن پہ یقیں اعتماد تھا ہم کو
وہ مہربان ہمارے وہ حرزجان چلے

مبارک سمیر


غزل ہے غیر مردّف، ہے قافیے کی کشاد

شرمندہ ترے رخ سے ہے رخسار پری کا

میں اپنے دوستوں کو عِید پربھیجوں تو کیا بھیجوں

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں