اٹھائے امن کا پرچم یوں نوجوان چلے
ستم کے تیروں سے چھلنی لہو لہان چلے
کفن کو باندھ کے سر سے خلاف ظلم و ستم
دو چار لوگ نہیں پورے خاندان چلے
اجڑ نہ جائے کہیں مئے کدۂ محبت کا
اِسے بچانے کو ساقی و بادہ خوان چلے
یہ چند الو جو ہندی چمن میں آبیٹھے
بہار و بلبل و گل ہی کیا باغبان چلے
شریک غم ہیں اے فصل بہار ہندی ترے
لہو سے سینچنے والے وہ پاسبان چلے
اے خاک ہندی فدا تجھ پہ جان و تن کر کے
وہ سرفروش وطن سوئے آسمان چلے
سمیر جن پہ یقیں اعتماد تھا ہم کو
وہ مہربان ہمارے وہ حرزجان چلے
مبارک سمیر