وہی خزاں میں ہمیشہ بہار دیتا ہے
اسی کا ذکر سکون و قرار دیتا ہے
جسے وہ چاہے اسے اقتدار دیتا ہے
اٹھا کے پستی سے قسمت سنوار دیتا ہے
نہیں ہے اس کی سخاوت کی انتہا کوئی
وہ اپنے بندوں کو لیل و نہار دیتا ہے
وہی ہمارا خدا ہے جو اپنی قدرت سے
"گلوں کو رنگ چمن کو بہار دیتا ہے”
اسی کے حکم سے چلتی زیست کی کشتی
وہی بھنور سے سلامت گزار دیتا ہے
مرے کریم کے جودو سخا کا کیا کہنا
میں ایک مانگوں وہ نعمت ہزار دیتا ہے
سیاہ دل کو منوّر وہ کرنے کی خاطر
بشکل انساں نبی کو اُتار دیتا ہے
نہیں ہے مجھ کو ضرورت کسی کی دولت کی
مجھے تو رزق وہ پرور دگار دیتا ہے
خبیر ایسا کہ ہر شی سے باخبر ہے وہ!
کریم اتنا کہ موقعے ہزار دیتا ہے
میں سر جھکاتا ہوں اس کے حضور اے شمسی
مری جبیں کو مرا رب وقار دیتا ہے
شمس الحق علیمی
مہراج گنج یوپی