” گلوں کو رنگ چمن کو بہار دیتا ہے "
وہی خدا ہے جو ہستی سنوار دیتا ہے
ہو نقش قلب پہ جب لاالہ الا اللہ
عبودیت کو مزے پھر ہزار دیتا ہے
نثار عقل ہے مولیٰ کی بے نیازی پر
وہ مشت خاک کو عزو وقار دیتا ہے
حریمِ جاں میں ہے روشن چراغ وحدت کا
وہی نگاہوں کو جلوے ہزار دیتا ہے
ظہورِ جلوہِ وحدت ہے ہر گھڑی لیکن
کسی کسی کی نظر کو وقار دیتا ہے
شراب شوق زیارت پلا پلا کر وہ
خیالِ رند کو کیف و خمار دیتا ہے
چھپا چھپا کے ہمارے عیوب دنیا میں
وہ مہلتیں تو ہمیں بار بار دیتا ہے
اسی کے حکم سے شمس و قمر کی ہے حرکت
وہی تو فرشِ زمیں کو قرار دیتا ہے
قدم قدم پہ نہ تاریکیوں سے ڈر حیدر
وہ ظلمتوں میں اجالے اتار دیتا ہے
رمضان حیدر قادری فردوسی