وحشتِ ہجر ہے، اندیشۂ تنہائی ہے

وحشتِ ہجر ہے، اندیشۂ تنہائی ہے
بابِ ہستی کا عجب قصۂ تنہائی ہے

جس طرف دیکھتا ہوں سایۂ تنہائی ہے
آخرش تا بہ کجا حیطۂ تنہائی ہے!!

وہ کہ جس قبر پہ میلہ سا لگا رہتا تھا
آج خستہ سا وہاں کتبۂ تنہائی ہے

پھر سے اِک بار وہی جرم کیا ہے میں نے
پھر سے اِک بار مجھے خدشۂ تنہائی ہے

میں تو بس معنیِ مصداق اسی لفظ کا ہوں!
مصحفِ زیست میں جو صیغۂ تنہائی ہے

عالمِ وصل کی لذت سے میں واقف ہی کہاں
میرے حصے میں تو بس گوشۂ تنہائی ہے

آج کل نیند سے اس طرح میں چونک اُٹھتا ہوں
جیسے خوابوں پہ بھی اب قبضۂ تنہائی ہے

عشق کا ایک جزیرہ ہے مِرا دل ثاقب!
اور پھر اس میں فقط موجۂ تنہائی ہے

(وحشتِ ہجر ہے، اندیشۂ تنہائی ہے)
(بابِ ہستی کا عجب قصۂ تنہائی ہے)

ثاقب قمری مصباحی

 


 

یہ دھوپ، چاند، ستارے، ہوا، گھٹا، بارش

اڑتے ہوئے پنچھی کے جو پر کاٹ رہا ہے

ستارہ اوڑھ کے نکلی ہو جیسے صبح بہار

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has 2 Comments

جواب دیں