ویسے یہ دل بہل نہیں سکتا
اب میں آگے بھی چل نہیں سکتا
راستہ بھی بدل نہیں سکتا
موت اک دن ضرور آنی ہے
موت کا وقت ٹل نہیں سکتا
کیا سنبھالے گا وہ کسی کو جو
گر کے خود ہی سنبھل نہیں سکتا
تم ہی آؤ تو کچھ قرار آئے
ویسے یہ دل بہل نہیں سکتا
اس کی باتوں پہ اعتبار ہو کیا
جو مرے ساتھ چل نہیں سکتا
یہ گماں آپ کا غلط ہے میاں
درد شعروں میں ڈھل نہیں سکتا
لوگ ہیں سنگ دل یہاں فیصل
سچ ہے پتھر پگھل نہیں سکتا
فیصل قادری گنوری
This Post Has One Comment
Pingback: دغا کی ان پہ میں تہمت لگا نہیں سکتا - Global Urdu