وہ لوگ مانگ رہے ہیں حسابِ آزادی

جو جانتے ہی نہیں ہیں نصابِ آزادی
وہ لوگ مانگ رہے ہیں حسابِ آزادی

وطن کا جو مجھے غدّار کہہ رہا ہے وہ
کبھی تو کھول کے پڑھ لے کتابِ آزادی

ہمارے ساتھ صفِ آخری میں تھا لیکن
بتا رہا ہے کہ خد ہے عقابِ آزادی

وفا کے نام پے اے بے وفا حقیقت میں
ہمارا نام ہے تنہا جوابِ آزادی

بدل کے آنکھ کا چشمہ ذرا قرینے سے
الٹ کے دیکھ لے پہلے حجابِ آزادی

ہر ایک سمت ہے کیف و سرور کی مستی
یہ اور کچھ بھی نہیں ہے سرا بِ آزادی

ہمارے خون کے قطرے بهے ہیں تب جاکر
وطن پہ آیا ہے اسلم شبابِ آزادی

وفا کے نام پے اے بے وفا حقیقت میں
ہمارا نام ہے تنہا جوابِ آزادی

بدل کے آنکھ کا چشمہ ذرا قرینے سے
الٹ کے دیکھ لے پہلے حجابِ آزادی

(جو جانتے ہی نہیں ہیں نصابِ آزادی)
(وہ لوگ مانگ رہے ہیں حسابِ آزادی)

اسلم علی صدیقی


ہیں بے شمار چمن میں گلاب آزادی

لکھا ہے خونِ شہیداں سے بابِ آزادی

کیوں ہم سے مانگ رہے ہو حسابِ آزادی

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

جواب دیں