مرے دل کے سبھی زخموں پہ وہ مرہم لگاتی ہے

مرے دل کے سبھی زخموں پہ وہ مرہم لگاتی ہے

 

مری یادوں کی ٹہنی پر مری ماں چہچہاتی ہے
مدھر انداز میں اک پیار سا نغمہ سناتی ہے

مرے احساس کے آنگن میں ہوتی ہے تبسم ریز
مرے دل کے سبھی زخموں پہ وہ مرہم لگاتی ہے

مرے غم کی لکیریں دیکھ کر دستِ محبت سے
شکستہ بازووں میں حوصلوں کے پَر سجاتی ہے

کبھی جب زندگی گزری کسی دشوار جنگل سے
تو خضرِ راہ بن کر ماں مجھے آگے بڑھاتی ہے

کبھی جب ضد پہ اڑ جاتا ہوں ناراضی دکھاتا ہوں
اصولِ زندگی تج کر کے وہ مجھ کو مناتی ہے

شریعت کے اصولوں پر عمل لازم کیا اس نے
خمارِ نیند سے اب بھی مجھے آکر جگاتی ہے

رخِ زیبا مری ماں کا ہے تنویرِ دلِ ویراں
وہ خوشبو دار آنچل سے مرا چہرہ چھپاتی ہے

وہ اک ممتا بھرا لہجہ ہے اکسیرِ غمِ دوراں
وہ اپنا غم چھپا کر روبرو بس مسکراتی ہے

سفر کے واسطے جب چھوڑتا ہوں گھر کی چوکھٹ کو
مجھے لگتا ہے جیسے ماں کی ممتا ساتھ آتی ہے

دلِ محزون پر ابرِ نوازش ہے دعا ماں کی
شبِ دیجور میں جو آگہی کا نور لاتی ہے

خدا کی رحمتوں کا اک خزانہ ہے چھپا اس میں
وہ غصہ ہو کے بھی احسان کا دریا بہاتی ہے

بھلا دیتی ہے اپنا شوق، اپنی آرزوئے دل
وہ اک بچے کی خاطر اپنی خواہش کو دباتی ہے

نصابِ زندگی ازبر ہے اس کو فضلِ مولیٰ سے
وفا پیشہ مری ماں ہر سبق مجھ کو پڑھاتی ہے

حصارِ خامہِ احسن میں ہے اک عکسِ تابندہ
مری یہ نظم دل کے آبگینے کو بچاتی ہے

توفیق احسن برکاتی


کبھی جب دیکھتا ہوں حالِ مسلم

وفا شناس نگاہوں کو پیار دیتا ہے

کتنا بدل گیا ہے ہندوستاں ہمارا

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has One Comment

جواب دیں