یہ راز کیا ہے کسی کو بتا نہیں سکتا

یہ راز کیا ہے کسی کو بتا نہیں سکتا
میں رقص کرتے کہیں اور جا نہیں سکتا

ہماری تشنہ لبی وہ بجھا نہیں سکتا
شرابِ عشق و محبت پلا نہیں سکتا

تری نگاہ کے خنجر کا ہوں میں مارا ہوا
کسی کو زخم جگر کا دکھا نہیں سکتا

دل و نگاہ کو ہے اب بھی انتظار ترا
یہ کیا کہا کہ کسی طور آ نہیں سکتا

جنوں کی راہ خسارے کی راہ ہے تسلیم !
مگر خرد سے تو الفت کو پا نہیں سکتا

اسیر ہونے چلا دل تمہاری یادوں کا
متاع وصل اب اس کو دلا نہیں سکتا

یقیں سے کہتا ہوں تیرے سوا کوئی مولیٰ
فضائے ملک کو بہتر بنا نہیں سکتا

خدا کرشمہ دکھائے تو اختلاف ہو دور
محال ہے اسے انساں دکھا نہیں سکتا

یہ حال ہو گیا اشرفؔ نگار خانے کا
کوئی بھی آس اب ان سے لگا نہیں سکتا

(یہ راز کیا ہے کسی کو بتا نہیں سکتا)
(میں رقص کرتے کہیں اور جا نہیں سکتا)

از: محمد اشرفؔ رضا قادری
بلودا بازار چھتیس گڑھ


دل سے اس کو لگا نہیں سکتا

ملال دل سے مرے یہ نکل نہیں سکتا

پیار سے میں لپٹ نہیں سکتا

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has One Comment

جواب دیں