زلف ، رخسار ، نازنیں آنکھیں

زلف ، رخسار ، نازنیں آنکھیں

 

روٹھتی ہے کبھی مناتی ہے
التفات اس کا شعبہ جاتی ہے

کس کو ہو جائے کچھ نہیں معلوم
یہ محبت تسامحاتی ہے

زلف ، رخسار ، نازنیں آنکھیں
اس کی تصویر سہ نکاتی ہے

سعی پیہم اور الفت بے لوث
رنگ اپنا ضرور لاتی ہے

اس کے الفاظ فاتح عالم
اس کی بولی محاوراتی ہے

یک بہ یک ہی ورود ہوتا ہے
شعر گوئی تو حادثاتی ہے

صبر کا باندھ ٹوٹے نا کیسے
آنسوؤں کی لہر فراتی ہے

ہر نظریہ مسلمہ بھی نہیں
اس میں بھی رسم ذاتیاتی ہے

اے مشاہد یہ ہے نہیں آساں
شاعری بھی دماغ کھاتی ہے

از: مشاہد رضا فیض آباد


شادؔ عظیم آبادی کی نعتیہ شاعری ‘ ظہورِ رحمت ‘ کے تناظر میں

غمگین ہے دل اتنا کہ خوں روتی ہیں آنکھیں

حسنؔ شناسی تاریخ کے آئینے میں

Share this on

آرکائیوز

متعلقہ اشاعت

This Post Has 3 Comments

جواب دیں